شاکلہ کیا ہے

انسان کی ذہنی ساخت (mindset) کے بارے میں قرآن کا ایک بیان ان الفاظ میں آیا ہے: قُلْ کُلٌّ یَعْمَلُ عَلَى شَاکِلَتِہِ فَرَبُّکُمْ أَعْلَمُ بِمَنْ ہُوَ أَہْدَى سَبِیلًا (17:84)۔ یعنی کہو کہ ہر ایک اپنے شاکلہ پر عمل کر رہا ہے۔ اب تمھارا رب ہی بہتر جانتا ہے کہ کون زیادہ ٹھیک راستے پر ہے۔

شاکلہ کے لفظی معنی طریقے کے ہیں، یعنی طریقِ فکر (way of thinking)۔ قرآن میں شاکلہ سے مراد وہ طریقہ ہے، جو ہر انسان کے مزاج کا حصہ ہوتا ہے۔ اب دیکھیے کہ وہ کون سا طریقہ ہے۔ یہ بات ایک حدیثِ رسول سے معلوم ہوتی ہے، جس کا ترجمہ یہ ہے: ہر پیدا ہونے والا فطرت پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے والدین اس کو یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔(صحیح البخاری، حدیث نمبر1385 )۔اس حدیثِ رسول کی روشنی میں آیت کا مفہوم متعین کیا جائے تو اس آیت میں موجود اھدی سبیلا سے مراد الفطرۃ ہے، یعنی وہ مزاج یا مائنڈ سیٹ (mindset) جو انسان کو پیدائش سے ملتا ہے۔ یہی اصل فطری مزاج ہے۔ لیکن انسان پیدا ہونے کے بعد ایک ماحول میں رہتا ہے۔ اس ماحول کے اثر سے ہر انسان کی ایک مزاج سازی ہونے لگتی ہے۔ اس مزاج سازی کو آج کل کی زبان میں کنڈیشننگ کہہ سکتے ہیں۔ پھر دھیرے دھیرے ایسا ہوتا ہے کہ اس کی کنڈیشننگ اس پر چھاجاتی ہے۔ اس کی سوچ کنڈیشنڈ سوچ بن جاتی ہے۔

حدیثِ رسول میں یہودی، نصرانی، اور مجوسی کےالفاظ آئے ہیں۔ یہ الفاظ مطلق معنی میں نہیں ہیں، بلکہ علامتی معنی میں ہیں۔ یعنی آپ کسی ماحول میں جاتے ہیں تو اسی کے مطابق آپ کی کنڈیشننگ شروع ہوجاتی ہے،یہاں تک کہ دھیرے دھیرے انسان اپنے قریبی ماحول کے مولڈ (mould) میں ڈھل جاتا ہے۔ پیدائش کے وقت ہر انسان اپنے فطری ماڈل پر ہوتا ہے، لیکن وہ ماحول سے متاثر ہوکر اسی ماحول میں ڈھلنا شروع ہوجاتا ہے۔آدمی کا پہلا کام یہ ہے کہ وہ اپنی اس کنڈیشننگ کو ڈی کنڈیشنڈ کرے، اپنے آپ کو ماحول کے مولڈ سے نکال کر باہر کرے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom