عظمتِ خداوندی
پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کے سلسلے میں جو باتیں بیان کی ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے: فَلَمَّا نَزَلْتُ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْیَا، نَظَرْتُ أَسْفَلَ مِنِّی فَإِذَا أَنَا بِرَہْجٍ وَدُخَانٍ وَأَصْوَاتٍ، فَقُلْتُ:مَا ہَذَا یَا جِبْرِیلُ؟ قَالَ:ہَذِہِ الشَّیَاطِینُ یَحُومُونَ عَلَى أَعْیُنِ بَنِی آدَمَ، أَنْ لَا یَتَفَکَّرُوا فِی مَلَکُوتِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ، وَلَوْلَا ذَلِکَ لَرَأَوْا الْعَجَائِبَ (مسند احمد، حدیث نمبر 8640)۔ یعنی جب میں آسمانِ دنیا کی طرف اترا تو میں نے اپنے نیچے کی طرف دیکھا۔ تو میں نے پایاکہ وہاں غبار، دھواں، اورشور ہے۔ میں نے کہا: جبریل، یہ کیا ہے۔ جبریل نے کہا: یہ شیاطین ہیں، جو بنی آدم کی آنکھوں پر منڈلا رہے ہیں، تاکہ انسان آسمانوں اور زمین کی ملکوت میں تفکر نہ کریں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو انسان عجائب دیکھتے۔
اس حدیث میں عجائب سے مراد عالم فطرت کے ونڈرس (wonders of nature) ہیں۔ نیچر کے یہ مشاہدات اللہ رب العالمین کی تخلیق کے مشاہدات ہیں۔ ان مشاہدات کو دیکھنے سے اللہ رب العالمین کی عظمت کا تجربہ ہوتا ہے۔ مگر تاریخ کا تجربہ بتاتا ہے کہ اس معاملے میں شیطان غالب آیا، اورشاید وہ پیغمبروں کے سوا ہر ایک کے لیے ان عجائبات کو دیکھنے کی راہ میں مانع بن گیا۔
اس معاملے میں علمائے دین کی تاریخ نہایت عجیب منظر پیش کرتی ہے۔ بڑے بڑے علماے دین میں سے شاید کوئی بھی شخص نہیں جو ان عجائبِ قدرت کو دیکھے، اور ان سے اللہ رب العالمین کا تجربہ حاصل کرے۔ دوربین (telescope) کے وجود میں آنے سے پہلے بھی تاریخ ایسے کسی عالمِ دین کی خبر نہیں دیتی، اور دور بین کے وجود میں آنے کے بعد بھی ایسا کوئی عالمِ دین تاریخ کے تذکرے میں موجود نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ میں علماے فنّیات تو بہت ملتے ہیں، لیکن عجائبِ فطرت کا کوئی عالم موجود نہیں۔ معرفت کی کتاب ایسے باب سے یکسر خالی ہے۔ اس حدیث میں شیطان کے شورو شغب وغیرہ سے مراد شاید اہلِ مغرب کے خلاف مسلمانوں کے اندر عمومی سطح پر منفی نفسیات کا پیدا ہونا ہے۔
شیاطین کا آنکھوں پر منڈلانا (to hover about) بہت بامعنی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ فطرت کے مظاہر کو مقدس بنا کر انسان سے یہ اسپرٹ چھین رہے ہیں کہ وہ فطرت کے مظاہر پر آزادانہ غور وفکر کریں۔ جو خالق کی معرفت کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ یہی وہ چیز ہے، جس کو قرآن میں فتنہ (الانفال، 8:39) کہا گیا ہے۔ اس فتنہ کو اسلام نے ختم کیا ہے۔ یعنی اسلام کے ذریعے وہ پراسس شروع ہوا، جس نے فطرت کے مظاہرکو تقدس (holiness)کے مقام سے ہٹا کر ریسرچ کا موضوع (subject of research) بنا دیا۔ دوسرے الفاظ میں دونوں کو ایک دوسرے سے ڈی لنک (delink) کردیا۔
اس کے بعد تاریخ میں ایک نیا عمل (process) جاری ہوا۔ اب فطرت کے مظاہر کی آزادانہ ریسرچ (objective research) ہونے لگی۔ مختلف اسباب کی بنا پر یہ کام تمام تر اہل مغرب نے انجام دیا۔ یہ عمل گلیلیو اور نیوٹن کے زمانے میں شروع ہوا۔ اسی عمل (process) کا نقطۂ انتہا وہ ظاہرہ تھا، جس کو تہذیب (civilization) کہا جا تا ہے۔
مغربی تہذیب دراصل اللہ کے تخلیقی عجائب (wonders of creation) کا نام تھی۔ اس تہذیب کے تحت جو سائنس پیدا ہوئی، وہ در اصل وہی چیز تھی، جس کے ذریعے وہی کام انجام پایا جس کو قرآن میں تبیین ِحق (فصلت،41:53) کہا گیا ہے، یعنی خالق کی معرفت بذریعہ تخلیق۔ جیسا کہ حدیث میں پیشین گوئی کے طو رپر آیا ہے:إِنَّ اللَّہَ لَیُؤَیِّدُ ہَذَا الدِّینَ بِالرَّجُلِ الفَاجِرِ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 3062)۔ یعنی اللہ اس دین کی مدد فاجر آدمی سے کرے گا۔
مگر معاملہ یہ پیش آیا کہ جس چیز پر مسلمان بھڑک گئے، وہ ان کا فاجر ہونا تھا۔حالاں کہ اس حدیث کا مطلب یہ تھا کہ کلچرل اعتبار سے اگرچہ وہ ایسی باتوں میں مبتلا ہوں گے، جوبرا ہوگا، مگر وہ جو کام انجام دیں گے، وہ اسلام کی تائید کا کام بن جائے گا۔ یعنی اس سے تبیینِ حق کا دروازہ کھلےگا، اور معرفتِ حق کو اعلیٰ پیمانے پر سمجھنا ممکن ہوجائے گا۔