زندہ شخصیت
ایک بزرگ کا قول ہے:من عاش للہ لایموت ابدا۔ یعنی جس نے اللہ کے لیے زندگی گزاری، وہ ہمیشہ زندہ رہے گا۔ یہ قول ایک عارف انسان کا قول ہے۔ اس قول کے پہلے حصے میں عیش کا لفظ حقیقی معنی میں آیا ہے۔ا س کے دوسرے حصے میں موت کا لفظ تمثیل کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ یعنی جو انسان اللہ کی یاد میں جینے لگے، اس کو ایک ابدی رزق مل جاتا ہے۔ اس کو ہمیشہ کے لیے ایک زندہ شخصیت حاصل ہوجاتی ہے۔ اس کا دل و دماغ کبھی جمود (stagnation) کا شکار نہیں ہوتا۔ اس کے دن بھی زندہ دن ہوتے ہیں، اور اس کی راتیں بھی زندہ راتیں۔اس کے برعکس جو شخص اللہ کی یاد میں نہ جیے، وہ گویا ایک مردہ انسان ہے، وہ زندگی کی حقیقی نعمت سے آشنا نہیں۔
زندگی اور موت کے معاملے میں انسان کے لیے صرف ایک آپشن ہے۔ وہ یہ کہ وہ خالق کے فیصلے پر راضی ہوجائے۔ خالق کے فیصلے پر راضی نہ ہونا، ایک ایسے آپشن کی طرف بھاگنا ہے، جو کسی کے لیے قابلِ حصول ہی نہیں۔ اس معاملے میں خالق کے فیصلے پر راضی ہونا کیا ہے، اور خالق کے فیصلے کے خلاف بھاگنا کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ آدمی اپنی زندگی کا منصوبہ خالق کے نقشے کے مطابق بنائے۔ وہ خالق کے نقشے پر پورا اترنے کی کوشش کرے۔ اس کے برعکس، اگر انسان خود اپنے بنائے ہوئے نقشے پر چلنا چاہے، تو وہ ناممکن کی طرف دوڑنے کے ہم معنی ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ اس معاملے میں حقیقت پسند بنے، وہ ہرگز حقیقت کے خلاف چلنے کی کوشش نہ کرے۔
اس دنیا کا جو خالق ہے، وہی اس کا مالک بھی ہے۔ دنیا پر سارا اختیار خالق کا ہے۔ اس دنیا میں کامیابی اس کے لیے ہے، جو خالق کے فیصلے پر راضی ہوجائے، جو انسان خالق کے فیصلے کو چھوڑ کر اپنے راستے پر چلنا چاہے، اس کے لیے بربادی کے سوا اور کچھ نہیں۔ خالق کے فیصلے پر راضی ہونے کا مطلب ہے— آخرت رخی زندگی (Akhirat-oriented life) گزارنا۔ اس کے برعکس، دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آدمی اپنی مرضی کی طرف دوڑے، مگر ایسی دوڑ انسان کو کہیں پہنچانے والی نہیں۔