عجز کا اصول
عجز کا مطلب لفظی اعتبار سے بے طاقتی (helplessness) ہے۔ لیکن اسلام میں عجز کا مطلب اس سے زیادہ ہے۔ اسلام کے مطابق، عجز ایک مثبت قدر (positive value) کانام ہے۔ عجز ایک اعلیٰ دریافت ہے، جو ایمان کے بعد کسی شخص کو حاصل ہوتا ہے۔خالق کی اعلیٰ صفت یہ ہے کہ وہ قادر مطلق ہستی (all-powerful being) ہے۔ اس کے مقابلے میں عجز بندے کی صفتِ حقیقی کا نام ہے۔ بندہ جب خالق کے مقابلے میں اپنی حقیقی حالت کو دریافت کرتا ہے، تو اسی کا دوسرا نام عجز ہے۔
عجز سب سے بڑی عبادت ہے۔ عجز عبادت کا مغز (essence) ہے۔ عجز انسان کی خودشناسی کا اعلیٰ درجہ ہے۔ عجز یہ ہے کہ آدمی اپنی حقیقتِ واقعی کو دریافت کرلے۔ عجز یہ ہے کہ آدمی خالق کے مقابلے میں اپنی حیثیتِ اصلی کا شعور حاصل کرلے۔عجز کمزوری کا نام نہیں ہے۔ عجز یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ سے باخبر ہوجائے۔ عجز یہ ہے کہ آدمی مین کٹ ٹو سائز (man cut to size)بن جائے۔عجز عبدیت کی تکمیل ہے۔ عجز خدا سے قربت کی آخری حالت ہے۔ عجز خدا شناسی کا اعلیٰ درجہ ہے۔ عجز بے طاقتی کا ظاہرہ نہیں، بلکہ عجز خدا سے قربت کا ایک ظاہرہ ہے۔
قرآن میں مومن کی ایک صفت ان الفاظ میں بتائی گئی ہے:وَلَمْ یَخْشَ إِلَّا اللَّہَ (9:18)۔ یعنی وہ اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرے۔ اس آیت میں ڈرنے کا مطلب معروف معنی میں ڈرنا نہیں ہے، بلکہ اللہ کو اپنا سول کنسرن (sole concern) بنانا ہے۔ جب کوئی شخص اللہ کو اپنا سول کنسرن بنا لے، تو اس کے بعد انسان کی جو داخلی حالت ہوتی ہے، اسی کانام عجز ہے۔ عجز کو محسوس کیا جاسکتا ہے، لیکن عجز کا خارجی مظاہرہ شاید ممکن نہیں۔ عجز کی سب سے بڑی صفت یہ ہے کہ وہ اللہ کو انووک (invoke)کرنے والا ہے۔ کیوں کہ عجز اپنی آخری حد پر پہنچ کر سفارش بن جاتا ہے۔