ایمان کا ذائقہ

کسی کھانے کی چیز کو آپ اپنے ہاتھ میں لیں، تو آپ کو اس کا کوئی ذائقہ محسوس نہیں ہوگا۔ لیکن جب کھانے کی اسی چیز کو آپ اپنے منھ میں ڈالتے ہیں تو آپ کو مختلف قسم کے خوشگوارذائقے محسوس ہوتے ہیں، مثلاً کھٹا، میٹھا، نمکین وغیرہ۔ اس کا سبب یہ ہے کہ زبان میں چھوٹے چھوٹے ذائقہ خانے (taste buds) ہوتے ہیں۔ جب کوئی ذائقہ خانہ اس کے مزاج کی چیز کا تجربہ کرتا ہے تو انسان فوراً اس کے ذائقے کو محسوس کرنے لگتا ہے۔ یہ ذائقہ خانے فطری طور پر کسی کی زبان میں کم ہوتے ہیں، اور کسی کی زبان میں زیادہ۔ چنانچہ ان ذائقہ خانوں کی تعداد تقریباً دو ہزار سے لے کر دس ہزار تک شمار کی گئی ہے۔یہ ذائقہ خانے استعمال کرنے کی بنا پر زندہ (alive) رہتے ہیں۔ لیکن جب ان کو استعمال نہ کیا جائے تو یہ کند (dul) ہوجاتےہیں۔

یہ مادی ذائقہ کا معاملہ ہے۔ اسی طرح انسان کے اندر زیادہ اعلیٰ درجے کے روحانی ذائقہ خانے (spiritual taste buds) بھی ہوتے ہیں۔ جو لوگ اپنے اس روحانی ذائقہ خانے کو استعمال کریں اور اس کو ڈیولپ کرتےرہیں، وہ روحانی ذائقوں کو بھی اسی طرح زیادہ لطیف انداز میں محسوس کریں گے، جس طرح کوئی شخص مادی ذائقے کو محسوس کرتا ہے۔ مثلاً اللہ سے محبت یا اللہ سے تعلق ایک ذائقہ ہے۔ اس ذائقے کے بہت سے درجے ہیں۔ جو آدمی ان ذائقوں کو ڈیولپ کرے، اور ان کو محفوظ رکھے تو وہ ہر ربانی آئٹم کے تجربے پر اس کا ذائقہ پاتا رہے گا۔ یہ روحانی ذائقہ خانے تعداد میں کم بھی ہوسکتے ہیں، اور اتنے زیادہ بھی کہ ان کا شمار کرنا ناممکن ہوجائےگا۔مادی ذائقہ خانے ہوں یا روحانی ذائقہ خانے دونوں ڈیولپ کرنے سے زندہ رہتے ہیں، اور اگر ان کو ڈیولپ نہ کیا جائے تو وہ کند ہوجاتے ہیں۔

یہی وہ حقیقت ہے، جو ایک حدیث رسول میں ان الفاظ میں آئی ہے:ذَاقَ طَعْمَ الْإِیمَانِ مَنْ رَضِیَ بِاللہِ رَبًّا، وَبِالْإِسْلَامِ دِینًا، وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولًا (صحیح مسلم، حدیث نمبر 34)۔ یعنی اس نے ایمان کا ذائقہ چکھا، جو اللہ کو رب مان کر راضی ہوا، اور اسلام کو دین مان کر، اور محمد کو نبی مان کر۔

ان ذائقوں کی شدت مختلف انداز میں ظاہر ہوتی ہے۔ مثلاً کسی شخص کو کھانے کی کوئی اچھی چیز ملے تو اس کو کھاکر وہ بہت زیادہ خوش ہوجائے گا، اس کی زبان سے واؤ (wow) یا ونڈرفل (wonderful) جیسے الفاظ نکل پڑتے ہیں۔ وہ خوشی سے جھوم اٹھتا ہے۔ اسپریچول ذائقے کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ مثلاً کسی کو اللہ سے تعلق کا اعلی تجربہ ہو، تو اس قسم کا اعلیٰ تجربہ پیش آئے گا، جس کو قرآن کی مختلف آیات میں ذکر کیا گیا ہے۔ مثلا ً إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِینَ إِذَا ذُکِرَ اللَّہُ وَجِلَتْ قُلُوبُہُمْ وَإِذَا تُلِیَتْ عَلَیْہِمْ آیَاتُہُ زَادَتْہُمْ إِیمَانًا وَعَلَى رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُونَ (8:2)۔ یعنی ایمان والے تو وہ ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل دہل جائیں اور جب اللہ کی آیتیں ان کے سامنے پڑھی جائیں تو وہ ان کا ایمان بڑھا دیتی ہیں اور وہ اپنے رب پر بھروسہ رکھتے ہیں۔ اسی طرح یہ آیت ہے: الَّذِینَ قَالَ لَہُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَکُمْ فَاخْشَوْہُمْ فَزَادَہُمْ إِیمَانًا وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّہُ وَنِعْمَ الْوَکِیلُ (4:173)۔ یعنی جن سے لوگوں نے کہا کہ بلاشبہ لوگوں نے تمہارے خلاف بڑی طاقت جمع کرلی ہے اس سے ڈرو، لیکن اس چیز نے ان کے ایمان میں اور اضافہ کردیا اور وہ بولے کہ اللہ ہمارے لئے کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے۔

انسان کی شخصیت میں شاید سب سے زیادہ خالص (pure) چیز آنسو ہے۔ آنسو ہمیشہ دل کی گہرائیوں سے نکلتے ہیں۔ انسانی جسم میں ہاضمے کا جو پیچیدہ عمل ہوتا ہے، اس سے انسان کے جسم میں جو مختلف قسم کی رقیق اشیا پیدا ہوتی ہیں، ان میں سب سے زیادہ لطیف چیز آنسو ہیں۔ جب کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان محبت خداوندی کے کسی لطیف ذائقے کو محسوس کرتا ہے تو وہ محبت کے آنسو کی شکل میں اس کی آنکھوں سے ابل پڑتا ہے۔ اس ظاہرے کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میں آیا ہے: وَإِذَا سَمِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَى الرَّسُولِ تَرَى أَعْیُنَہُمْ تَفِیضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوا مِنَ الْحَقِّ یَقُولُونَ رَبَّنَا آمَنَّا فَاکْتُبْنَا مَعَ الشَّاہِدِینَ (5:83)۔یعنی جب وہ اس کلام کو سنتے ہیں جو رسول پر اتارا گیا ہے تو تم دیکھو گے کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں، اس سبب سے کہ انھوں نے حق کو پہچان لیا۔ وہ پکار اٹھتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہم ایمان لائے۔ پس تو ہم کو گواہی دینے والوں میں لکھ لے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom