اقشعرار کیا ہے
قرآن کی ایک آیت میں مومن کی صفت ان الفاظ میں بتائی گئی ہے:اللَّہُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِیثِ کِتَابًا مُتَشَابِہًا مَثَانِیَ تَقْشَعِرُّ مِنْہُ جُلُودُ الَّذِینَ یَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ ثُمَّ تَلِینُ جُلُودُہُمْ وَقُلُوبُہُمْ إِلَى ذِکْرِ اللَّہِ ذَلِکَ ہُدَى اللَّہِ یَہْدِی بِہِ مَنْ یَشَاءُ وَمَنْ یُضْلِلِ اللَّہُ فَمَا لَہُ مِنْ ہَادٍ (39:23)۔ یعنی اللہ نے بہترین کلام اتارا ہے۔ ایک ایسی کتاب آپس میں ملتی جلتی، بار بار دہرائی ہوئی، اس سے ان لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرنے والے ہیں۔ پھر ان کے بدن اور ان کے دل نرم ہو کر اللہ کی یاد کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں۔ یہ اللہ کی ہدایت ہے۔ اس سے وہ ہدایت دیتا ہے جس کو وہ چاہتا ہے۔ اور جس کو اللہ گمراہ کردے تو اس کو کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔
اقشعرار کا مطلب ہے شدت تاثر کے تحت جسم پر کپکپی (shivering)کا طاری ہوجانا۔ یہ کیفیت ایک عام کیفیت ہے۔ مومن کے لیے ایسا اس وقت ہوتا ہے جب کہ اللہ کے خوف سے اس کے اندر شدید تاثر پیدا ہو۔ اس وقت عام فطری قانون کے تحت اس کے جسم پر کپکپی کی کیفیت طاری ہوجائے گی۔ اس سے دل کے اندر نرمی پیدا ہوجائے گی۔ آدمی زیادہ قبولیت کے جذبے کے تحت اللہ کی باتیں سننے لگے گا۔اس کے برعکس، جس آدمی کے اندر اقشعرار کی یہ کیفیت نہ پیدا ہو، یہ اس بات کی علامت ہے کہ اس کے دل میں قساوت کی کمزوری پیدا ہوچکی ہے۔ وہ اللہ کی پکڑ کی باتیں سننے کے بعد بھی سخت دل بنا رہتا ہے۔
اس آیت کے آخری جزء کا ترجمہ یہ ہے: یہ اللہ کی ہدایت ہے۔اس سے اللہ ہدایت دیتا ہے جس کو وہ چاہتا ہے۔ اور جس کو اللہ گمراہ کردے تو اس کو کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ قصداً کسی کو ہدایت دیتا ہے، اور کسی کو نہیں دیتا ہے۔ بلکہ ایسا انسان کی اپنی طرف سے ہوتا ہے، جو انسان سوچے اور نصیحت کو پکڑے، وہ ضرور ہدایت پائے گا، اور جو آدمی سوچ اور نصیحت سے خالی ہو، وہ اس کیفیت سے بھی خالی رہے گا۔