مسخر کائنات
قرآن میں دو درجن سے زیادہ آیتیں ہیں، جن میں بتایا گیا ہے کہ زمین و آسمان کو اللہ نے انسان کے لیے مسخر کردیا ہے۔مسخر کرنے کا مطلب ہے تابع کردینا، یا سبجکٹ (subject)بنا دینا۔ زمین و آسمان کا مطلب ہے کائنات۔ کائنات کوانسان کے لیے مسخر کردینا، انسان کے اوپر خالق کی بہت بڑی نعمت ہے۔ اسی تسخیر کی وجہ سے پوری کائنات کسٹم میڈ یونیورس (custom-made universe) بنی ہوئی ہے۔
اس تسخیرکے دو پہلو ہیں۔ اس کا ایک پہلو یہ ہے کہ جس کو فوق الفطری سطح پر تابع بنانا کہا جاسکتا ہے۔ یعنی انسان کی مرضی کے بغیر اپنے آپ کائنات کے تمام اجزاء کا انسان کی خدمت میں لگا رہنا۔ اس کائنات میں کوئی چیز انسان کی دشمن نہیں، کائنات کی ہر چیز انسان کے موافق بنی ہوئی ہے۔ انسان کی مرضی کے بغیر ہر چیز انسان کی خدمت کررہی ہے۔
تسخیر کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ نےکائنا ت کو معلوم فطری قوانین کا تابع بنا دیا ہے۔ اس طرح یہ ممکن ہوگیا ہے کہ انسان فطرت کے ان قوانین کو دریافت کرے، اور ان کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کرے۔ مثلاً بجلی کے قانون کو دریافت کرکے بجلی کو اپنے لیے مفید بنانا۔ ہوائی جہاز کے قانون کو دریافت کرکے ہوائی جہاز کو اپنی سواری کے لیے استعمال کرنا، وغیرہ۔
کائنات ناقابل قیاس حد تک عظیم ہے۔ کائنات کی عظمت خالق کی عظمت کا ایک تعارف ہے۔ انسان کو اگر اس عظمت کی معرفت ہوجائے، تو وہ کامل معنوں میں سبمیشن (submission) کی زندگی اختیارکرلے گا۔ انسان کے لیے ناممکن ہوجائے گا کہ وہ زمین پر سرکشی کا طریقہ اختیارکرے۔ انسان فساد کا طریقہ چھوڑ کر کامل معنوں میں اطاعت الٰہی کی زندگی اختیار کرلے گا۔ اسی زندگی کا شرعی نام تقویٰ کی زندگی ہے۔ ایسے ہی متقیوں کے لیے آخرت میں ابدی جنت کی خوشخبری ہے۔