تخلیق میں تنوع
قرآن میں مختلف مقامات پر انسان کی تخلیق کا قصہ بیان ہوا ہے۔ ان میں سے ایک جزء کا ترجمہ یہ ہے: جب تمھارے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں مٹی سے ایک بشر بنانے والا ہوں۔ پھر جب میں اس کو درست کر لوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم اس کے آگے سجدے میں گر پڑنا۔ پس تمام فرشتوں نے سجدہ کیا۔ مگر ابلیس کہ اس نے گھمنڈ کیا اور وہ انکار کرنے والوں میں سے ہوگیا۔ اللہ نےفرمایا کہ اے ابلیس، کس چیز نے تجھ کو روک دیا کہ تو اس کو سجدہ کرے جس کو میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا۔ یہ تو نے تکبر کیا یا تو بڑے درجہ والوں میں سے ہے۔ اس نے کہا کہ میں آدم سے بہتر ہوں۔ تو نے مجھ کو آگ سے پیدا کیا ہے، اور اس کو مٹی سے۔ (38:71-76)
یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ ابلیس نے اپنی افضلیت کا دعویٰ خود اپنی زبان سے کیا تھا۔ اس کے برعکس، انسان کا معاملہ یہ ہے کہ اس کی افضلیت کا بیان خود خالق نے اپنی زبان سے کیا ہے۔ ابلیس کی بات خود ساختہ دعویٰ کی ہے۔ جب کہ انسان کی افضلیت کا اعلان خود خالق کائنات نے کیا ہے۔اللہ اور ابلیس کے درمیان اس مکالمے سے کئی باتیں سامنے آتی ہیں۔ انھیں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اللہ کا جو منصوبہ ترقی کے بارے میں ہے، وہ اختلاف (diversity)سے تعلق رکھتا ہے، نہ کہ یکسانیت سے۔ جہاں یکسانیت ہوگی، وہاں ارتقا رک جائے گا، اور جہاں اختلاف پایا جائے، وہاں ارتقا جاری رہے گا۔
اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کو تنوع پسند ہے۔ یکسانیت اللہ کو پسند نہیں۔ اگر یکسانیت اللہ کو پسند ہوتی تو فرشتہ، جنات اور انسان سب کو اللہ یکساں بنا دیتا۔ سب کی سوچ، سب کا ذوق، سب کا عمل، بالکل ایک طرح کا ہوجاتا۔ مگر اس دنیا کے خالق کو تنوع پسند ہے، نہ کہ یکسانیت۔ یہ فطرت کا قانو ن ہے، اور فطرت کے قانون میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں۔اسی فطری حقیقت کو اردو کے مشہور شاعر ذوق نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
گلہائے رنگ رنگ سے ہے زینتِ چمن اے ذوؔق اس جہاں کو ہے زیب اختلاف سے