خدا کی معرفت
انسان پیدائشی طور پر ایک متلاشی (seeker)انسان ہے۔ اس کی تلاش کا اصل مرکز صرف ایک ہے، اور وہ ہے اپنے خالق کو دریافت کرنا۔ انسان جب اپنے آپ کو دیکھتا ہے، اور اپنے آس پاس کی دنیا کو دیکھتا ہے تو ہر طرف اس کو تخلیق کے کرشمے دکھائی دیتے ہیں۔ اس کے اندر فطری طور پر یہ سوچ جاگ اٹھتی ہے کہ میرا اور اس دنیا کا خالق کون ہے، اور اس سے میرا تعلق کیا ہے۔
آپ ایک کھلے میدان میں کھڑے ہوں تو آپ کو بے شمار چیزیں دکھائی دیں گی۔ آپ دیکھیں گے کہ آپ کے اوپر سورج چمک رہا ہے، چاروں طرف آپ کے لیےہرے بھرے درخت اُگے ہوئے ہیں۔ آپ کو مسلسل طور پر آکسیجن سپلائی کیا جارہا ہے، جو آپ کے لیے زندگی بخش سانس کا ذریعہ ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ دریاؤں اور سمندروں میں آپ کے لیےپانی کے بھاری ذخیرے موجود ہیں۔ آپ کو نظر آئے گا کہ زمین (soil) آپ کے لیے بڑی مقدار میں اناج اور پھل اُگارہے ہیں۔ آپ دریافت کریں گے کہ پوری یونیورس آپ کے لیے ایک کسٹم میڈ یونیورس (custom-made universe) ہے، وغیرہ۔
غور و فکر کے ذریعے آپ جانیں گے کہ اس دنیا میں کوئی ہے، جو دینے والا (giver) ہے۔ سارے انسان اس کے مقابلے میں لینے والے (taker) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انسان کے اپنے وجود سے لے کر باہر کی پوری دنیا تک ہر چیز آپ کو اسی حقیقت کی گواہی دیتی ہوئی نظر آئے گی۔ یہ معرفت کا آغاز ہے۔ اس طرح کے تجربے کے دوران آخر کار آپ اللہ رب العالمین کو دریافت کرتے ہیں۔ یہ دریافت آپ کے وجود کا سب سے بڑا حصہ بن جاتی ہے۔ یہ دریافت آپ کے لیےماسٹر اسٹروک ثابت ہوتی ہے۔یہ دریافت آپ کی سوچ کو بدل دیتی ہے۔ آپ کے اندر پورے معنوں میں خدا رخی فکر پیدا ہوتی ہے۔ آپ کی ہر بات میں اللہ کی محبت اور اللہ کا خوف پیدا ہوجاتا ہے۔ آپ کے اندر ایک نیا ذہن جاگ اٹھتا ہے، جس کو عارفانہ ذہن کہتے ہیں -اسی کا نام معرفت خداوندی ہے۔