اللہ کا تخلیقی منصوبہ
اللہ رب العالمین جو کائنات کا خالق ہے، اس نے ہر چیز کو اعلیٰ منصوبے کے تحت بنایا ہے۔ اس حقیقت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:صُنْعَ اللَّہِ الَّذِی أَتْقَنَ کُلَّ شَیْءٍ (27:88)۔ یعنی یہ اللہ کی کاریگری ہے جس نے ہر چیز کوکامل خوبی کے ساتھ بنایاہے:
Such is the work of God, Who has created all things in perfect order.
پیڑ پودے سے لے کر سائفن (siphon) اور کمپیوٹر تک ہر چیز اسی اعلیٰ منصوبہ بندی کی مثال ہے۔ اس دنیا میں ہر آدمی جزئی یا کلی طور پر ان اعلیٰ تخلیقات سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔ اس واقعے کا تقاضا ہے کہ آج کی دنیا میں سب سے زیادہ شکر ِ خداوندی کا ظاہرہ پایا جائے۔ لیکن شاید یہی وہ چیز ہے جو دنیا میں سب سے کم پائی جاتی ہے۔ اس کمی کا سبب یہ ہے کہ سورج، چاند اور ستارے (مخلوقات) بظاہر دکھائی دیتے ہیں، لیکن خالق (Creator) محسوس انداز میں دکھائی نہیں دیتا۔اس ظاہرے کی بنا پر انسان نے یہ فرض کرلیا کہ جو چیز مشاہدے میں آئے، وہ اپنا وجود رکھتی ہیں، اور جو چیزمشاہدے میں نہ آئے، اس کا کوئی وجود بھی نہیں۔مگر جدید زمانے میں سائنسی مطالعہ نے بتایا ہے کہ جو چیزیں بظاہر دکھائی دیتی ہیں، وہ بھی گہرے تجزیہ کی سطح پر غیر مشہود بن جاتی ہیں۔ اس حقیقت کو مشہور سائنس داں سر آرتھر ایڈنگٹن اور دوسرے مصنفین نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے۔ مثلا ًملاحظہ ہوسر آرتھر ایڈنگٹن کی کتاب:
Science and the Unseen World, Macmillan [US], 1929.
موجودہ زمانے میں تخلیق (nature) کے بارے میں بہت زیادہ معلومات حاصل ہوئی ہیں۔ یہ ساری معلومات گویا کہ شکر کے آئٹم ہیں۔ مگر عجیب بات ہے کہ نئی معلومات نے شکر خداوندی میں اضافہ نہیں کیا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ لوگ چیزوں کو مادی معنی میں لے لیتے ہیں، ان واقعات میں معرفت کا جو نکٹر (nectar) ہے، اس کو دریافت کرنے میں وہ ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ شہد کی مکھی جانتی ہے کہ ا س کو باغ کے پھولوں سے نکٹر (nectar) لینا ہے۔ مگر انسان اس راز سے بے خبر ہے۔