خالق اور مخلوق
تخلیق (creation)کا وجود خالق (Creator)کے وجود کا ثبوت ہے۔ انسان اگرچہ براہ راست طو رپر خالق کو نہیں دیکھتا، لیکن بالواسطہ طو رپر وہ ہر لمحہ خالق کو دیکھ رہا ہے۔ اس دنیا کی ہر چیز اپنے خالق کی ریمائنڈر (reminder) ہے۔ ہر چیز، خواہ وہ چھوٹی ہو یا بڑی، خاموش زبان میں کہہ رہی ہے کہ ایک خالق ہے، جس نے مجھ کو وجود بخشا ہے۔ میرا ہونا، اپنے آپ میں خالق کے ہونے کا ثبوت (proof) ہے۔
انسان کی یہ کمزوری ہے کہ وہ چیزوں کو فار گرانٹیڈ (for granted) لیتا رہتا ہے۔ انسان جب کسی چیز کو بار بار دیکھتا ہے، تو وہ سمجھ لیتا ہے کہ وہ اس کے لیے موجود ہے۔ انسان اپنی اس کمزوری کی بنا پر خالق کے وجود(existence of Creator) کو ایک زندہ وجود کا درجہ نہیں دے پاتا۔ خالق کو بظاہر مانتے ہوئے بھی، وہ اس کو زندہ یقین کی حیثیت سے اختیار نہیں کرپاتا۔ اس کمی کی بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ خدا کو وہ اپنی زندگی میں سپریم کنسرن (supreme concern) کی حیثیت سے شامل نہیں کرپاتا۔
اس کمزوری کی بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ بظاہر اگرچہ وہ خدا کو مانتا ہے، لیکن اس کی روزمرہ کی زندگی اس طرح گزرتی ہے کہ جیسے خدا اس کی زندگی میں صرف ایک بے روح ضمیمہ (spiritless appendix) کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے لیے خدا کو ماننا بھی ایسا ہی ہے، جیسے کہ خدا کا نہ ماننا۔ اپنڈکس کا آپریشن کردیا جائے تو اس کے بعد بھی انسان بدستور ویسا ہی باقی رہتا ہے، جیسا کہ وہ پہلے تھا۔ اس کے لیے خدا کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔خالق کو زندہ یقین کی حیثیت سے اپنی زندگی میں شامل کرنا، اپنے آپ نہیں ہوتا، بلکہ اس کے لیے ایک مسلسل قسم کا تھنکنگ پراسس درکار ہے۔ نان اسٹاپ تھنکنگ پراسس (non-stop thinking) کے بغیر ایسا نہیں ہوسکتا کہ کسی شخص کی زندگی میں خالق ایک زندہ ہستی کے طور پر شامل ہوجائے۔