معرفت کا سفر
حدیث کی کتابوں میں ایک روایت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کی گئی ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں: لو عرفتم اللہ حق معرفتہ لمشیتم على البحور، ولزالت بدعائکم الجبال، ولو خفتم اللہ حق مخافتہ لعلمتم العلم الذی لیس معہ جہل، ولکن لم یبلغ ذلک أحدا، قیل:یا رسول اللہ ولا أنت؟ قال:ولا أنا، اللہ عز وجل أعظم من أن یبلغ أحد أمرہ کلہ (کنزالعمال، حدیث نمبر 5893)۔ یعنی اگر تم اللہ کی معرفت حاصل کرلو، جیسا کہ اس کی معرفت کا حق ہے، تو ضرور تم سمندروں میں چلنے لگو گے، اور تمھاری دعا سے پہاڑ زائل ہوجائے گا، اور اگر تم اللہ سے ڈرو، جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے، تو ضرور تمھیں وہ علم حاصل ہوجائے گا، جس کے ساتھ کوئی جہل نہ ہو، لیکن کوئی اس تک نہیں پہنچا۔ کہا گیا: آپ بھی نہیں اے خدا کے رسول، آپ نے کہا: نہیں، میں بھی نہیں۔ اللہ تعالی اس سے بہت عظیم ہے کہ کوئی اس کے تمام معاملات تک پہنچ جائے۔
مذکورہ اس حدیث میں جو بات کہی گئی ہے، وہ کوئی پراسرار بات نہیں ہے۔ وہ دراصل ایک اہم حقیقت کو بتارہی ہے۔ وہ یہ کہ انسان کو جو عقل دی گئی ہے، وہ صرف زمان ومکان (time and space) کے اندر سوچ سکتی ہے اور زمان ومکان کے اندر واقع چیزوں کو جان سکتی ہے۔ لیکن اللہ رب العالمین کا معاملہ یہ ہے کہ وہ زمان ومکان سے ماورا (beyond space and time) ہے۔
یہ انسان کا سب سے بڑا امتحان ہے۔ انسان کی عقل اگر چہ زمان ومکان کے اندر کام کرتی ہے، لیکن اس سے مطلوب ہےکہ وہ زمان ومکان سے ماورا حقیقت کو دریافت کرے اور اُس پر ایمان لائے۔ اِسی دریافت کے لیے انسان کو وہ صلاحیت دی گئی ہے جس کو تصوراتی فکر (conceptual thinking) کہاجاتا ہے۔ اِس دریافت تک پہنچنے ہی کا نام اعلی معرفت ہے۔ جو انسان اپنے ’تصوراتی فکر، کو بھر پور طورپر استعمال کرے اور زمان ومکان کے ماورا حقیقت کو شعوری طورپر دریافت کرے، وہی وہ عارف انسان ہے جس کے لیے آخرت میں جنت کے دروازے کھولے جائیں گے۔