توحید کا مقام
ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے:عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:قَالَ رَجُلٌ لِلنَّبِیِّ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:مَا شَاءَ اللہُ وَشِئْتَ۔قَالَ:جَعَلْتَ لِلَّہِ نِدًّا بَلْ مَا شَاءَ اللہُ وَحْدَہُ (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 13005)۔ یعنی ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا، جو اللہ چاہے اور جوآپ چاہیں۔ یہ سن کر آپ نے کہا: کیا تو نے مجھے اللہ کے برابر کردیا۔ بلکہ جو اللہ اکیلا چاہے۔
ند کا معنی ہے برابر (equal)۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اللہ کی عظمت اتنی زیادہ ہے کہ کوئی ہستی کسی ادنی پہلو سے بھی اس کے ہمسر نہیں ہوسکتی۔ جو آدمی اللہ کی غیر مشترک عظمت کا حقیقی شعور رکھتا ہو، وہ اس معاملے میں اتنا زیادہ حساس ہوگا کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو ضمیر (pronoun)کی شکل میں بھی برابر کرنا گوارا نہیں کرسکتا۔ قرآن کی مختلف آیتوں میں اللہ کی عظمت کا بیان ہوا ہے، مثال کے طور پر آیۃ الکرسی (البقرۃ، 2:255)۔ آپ آیۃ الکرسی کو سمجھ کر پڑھیں تو آپ کا دل دہل اٹھے گا۔ مثلاً اللہ کی عظمت کے بارے میں آیۃ الکرسی کے ان الفاظ کو پڑھیے -وَسِعَ کُرْسِیُّہُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ:
His throne extends over the heavens and the earth.
زمین و آسمان ناقابل قیاس حد تک وسیع ہے۔ اس عظیم کائنات کو اللہ رب العالمین ہر لمحہ سنبھالے ہوئے ہے۔اسی حقیقت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:یَسْأَلُہُ مَنْ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ کُلَّ یَوْمٍ ہُوَ فِی شَأْنٍ(55:29)۔ یعنی اسی سے مانگتے ہیں جو آسمانوں اور زمین میں ہیں۔ ہر روز اس کا ایک کام ہے۔
یہ معاملہ عقل کو چکرانے (mind-boggling)کی حد تک عظیم ہے۔ ایک اردو شاعر نے 1857 ء میں دلی کی بربادی کویاد کرتے ہوئے یہ کہا تھا:
اس بات کو کہنے کے لیے کہاں سے جگر آئے
اللہ رب العالمین کی عظمت کے بارے میں یہ بات بے شمار گنا حد تک بڑی ہے۔