اسمِ اعظم

ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے:سَمِعَ النَّبِیُّ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَجُلًا یَقُولُ: اللَّہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ بِأَنَّکَ أَنْتَ اللَّہُ الْأَحَدُ الصَّمَدُ، الَّذِی لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُولَدْ، وَلَمْ یَکُنْ لَہُ کُفُوًا أَحَدٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:لَقَدْ سَأَلَ اللَّہَ بِاسْمِہِ الْأَعْظَمِ، الَّذِی إِذَا سُئِلَ بِہِ أَعْطَى، وَإِذَا دُعِیَ بِہِ أَجَابَ (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 3857)۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو کہتے ہوئے سنا، اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں، کیوں کہ تو ہی اللہ ہے، اکیلا، ہر ایک کی ضرورتوں کو پوری کرنے والا، جس نے کسی کو پیدا نہیں کیا، اور نہ ہی وہ پیدا کیا گیا، اور اس کے برابر کوئی نہیں۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: اس نے اللہ کو اس کے اسم اعظم کے ساتھ پکارا ہے، جس کے ذریعے سے جب مانگا جائے توو ہ عطا کرے،ا ور جب دعا کی جائے تو قبول ہو۔

یہ کون سی دعا ہے۔ یہ دعا رٹے ہوئے الفاظ کی تکرار نہیں ہے، نہ اس کا کوئی ’’رسمی نصاب‘‘ ہے۔ یہ دعا کی وہ قسم ہے جس میں بندہ اپنی پوری ہستی کو انڈیل دیتا ہے۔ جب بندے کی آنکھ سے عجز کا وہ قطرہ ٹپک پڑتا ہے جس کا تحمل زمین اور آسمان بھی نہ کرسکیں۔ جب بندہ اپنے آپ کو اپنے رب کے ساتھ اتنا زیادہ شامل کردیتا ہے کہ ’’مانگنے والا‘‘ اور ’’دینے والا‘‘ دونوں ایک ترازو پر آجاتے ہیں۔ یہ وہ لمحہ ہے جب کہ دعا،محض لغت کا ایک لفظ نہیں ہوتا، بلکہ وہ ایک شخصیت کے پھٹنے کی آواز ہوتی ہے۔ اُس وقت خدا کی رحمتیں اپنے بندے پر ٹوٹ پڑتی ہیں۔ بندگی اور خدائی دونوں ایک دوسرے سے راضی ہوجاتے ہیں۔ قادرِ مطلق،عاجزِ مطلق کو اپنی رحمت کے سائے میں لے لیتا ہے۔

یہ زبان وہ ہے، جس کو انگریزی کے حوالے سے لینگویج آف انڈراسٹیٹمنٹ (language of understatement) کہا جاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں اردو کے انشاء پردازوں کی زبان لینگویج آف اووراسٹیٹمنٹ (language of overstatement) کہی جاسکتی ہے۔وہ لوگ جو اردو زبان میں پلے بڑھے ہوں، جن کا اسلوب اردو زبان کے ماحول میں بنا ہو، وہ لینگویج آف انڈرسٹیٹمنٹ بولنے کے لیے نااہل ہوتے ہیں۔

لینگویج آف اوورا سٹیٹمنٹ کا معاملہ سادہ معاملہ نہیں ہے۔ اس کے نتیجے میں جو مزاج بنتا ہے، وہ کبر خفی (hidden arrogance)کا مزاج کہا جاسکتا ہے۔ ایسے لوگ اس کےلیے نااہل ہوجاتے ہیں کہ وہ اسم اعظم کی زبان بولیں، اور اسم اعظم کے لب و لہجہ میں سوچیں۔ پروفیسر ہمایون کبیر نے انڈیا ونس فریڈم (India Wins Freedom)کے مقدمے میں بجا طور پر لکھا ہے کہ انگریزی زبان بنیادی طور پر لینگویج آف انڈر اسٹیٹمنٹ ہے:

English, on the other hand, is essentially a language of understatement.

اس کے مقابلے میں اردو زبان لینگویج آف اوور اسٹیٹمنٹ ہے۔ جو لوگ اردو زبان کے ماحول میں رہتے ہوں، وہ اس فرق کو سمجھنے کے لیے تقریباً نا اہل ہوجاتے ہیں۔ مثلاً غالباً 1940 کی بات ہے، اس وقت میں ایک مدرسے میں پڑھتا تھا۔ یہ آزادی کی جدو جہد کا زمانہ تھا۔ ہمارے مدرسے کے ایک بڑے استاد نے ایک بار تقریر کرتے ہوئے کہا: انگریز ساری دنیا کا مکھن کھا گئے۔ جو لوگ اس طرح کی زبان کو لکھیں یا پڑھیں، وہ شعوری یا غیر شعوری طور پر کبر خفی کا شکار بن جاتے ہیں۔ وہ باتوں کو ایز اٹ از (as it is) سمجھنے کے لیے نااہل ہوجاتے ہیں۔ اردو زبان کا یہ ایک عام مسئلہ ہے۔ یہی سبب ہے کہ اردو ریڈر شپ میں عام طور پر حقیقت پسندی کا مزاج موجود نہیں ہوتا۔اردو ریڈر شپ کی یہ کمزوری ہے کہ وہ صرف ہائی پروفائل (high profile)کے اسلوب کو جانتی ہے، لو پروفائل (low profile)کے اسلوب کو وہ سرے سے جانتی ہی نہیں۔ حالاں کہ ہائی پروفائل لوگوں کے اندر جذباتی مزاج پیدا کرتا ہے، اور جذباتی مزاج کامیابی تک پہنچنے کے لیے مستقل رکاوٹ ہے۔

اس معاملے کا بہت گہرا تعلق دعا سے ہے۔ کیوں کہ وہ آدمی جو لینگویج آف اوور سٹیٹمنٹ سے مانوس ہو، وہ عجز کی نفسیات سے خالی ہوجائے گا، وہ عجز کی زبان میں دعا کرنے کے قابل نہیں رہے گا۔ ایسا آدمی ہائی پروفائل میں بولے گا، اور ہائی پروفائل میں سوچے گا،اور ہائی پروفائل اور عجز کا شعور دونوں ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom