خدا اور انسان
انسان جب پیدا ہوتا ہے تو وہ دھیرے دھیرے زبان سیکھتا ہے۔ اس طرح وہ یہ شعور حاصل کرتا ہے کہ وہ ایک انسان ہے۔ اسی حقیقت کو زیادہ فلسفیانہ انداز میں فرانسیسی مفکر، ڈیکارٹ (1596) نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے — میں سوچتا ہوں، اس لیے میں ہوں:
I think, therefore, I exist
یہ ذاتی شعور کے ذریعہ اپنے وجود کا یقین ہے۔ اس کے بعد آدمی ایک سیارہ (planet earth) پر زندگی گزارتا ہے۔ وہ دھیرے دھیرے یہ یقین حاصل کرتا ہے کہ میرا ایک وطن ہے، جو زمین پر واقع ہے۔ آدمی کو جس طرح یہ مبنی بر مشاہدہ یقین اپنی ذات کے بارے میں ہوتا ہے، اسی طرح اس کو اپنے وطن، زمین کے بارے میں بھی ہوتا ہے۔
یہ شعوری ارتقا کا ایک معاملہ ہے۔ یہ شعوری ارتقا جس طرح آدمی کو اپنے وجود کا یقین دیتا ہے۔ اسی طرح وہ اس کو یہ یقین دیتا ہے کہ یہاں ایک زمین ہے، جس میں وہ دوسرے انسانوں کے ساتھ آباد ہے۔ اس زمین میں لائف سپورٹ سسٹم کے تمام آئٹم موجود ہیں۔ شعور کا یہ فطری ارتقا پھر اس درجہ کو پہنچتا ہے کہ آدمی یہ دریافت کرتا ہے کہ جس طرح میرا ایک وجود ہے، اسی طرح میرے خالق کا بھی یقینی طور پر ایک وجود ہے۔ انسان جب خالق کے وجود کو دریافت کرلے تو اس کو بقیہ تمام چیزوں کی توجیہہ (explanation) مل جاتی ہے۔ اور اگر وہ خالق کے وجود سے بے خبر رہے تو اس کے لیے ہر چیز غیر توجیہہ شدہ (unexplained) بنی رہتی ہے۔
اس کے بعد آدمی قرآن میں یہ پڑھتا ہے کہ اہل جنت کو جب اگلے دور حیات میں جنت ملے گی تو وہ کہیں گے کہ یہ جنت تو ہمارے لیے زمین کے متشابہ جنت ہے (البقرۃ، 2:25)۔ یہ ایک فطری دریافت کا معاملہ ہے۔ یہ فطری پراسس (natural process) ہے جو آدمی کو ہر قابل دریافت چیز کی ڈسکوری تک پہنچادیتا ہے۔