ایمان باللہ
اللہ پر ایمان اللہ کی معرفت سے شروع ہوتا ہے، یعنی اللہ رب العالمین کی شعوری دریافت سے۔ یہ حقیقت قرآن کی آیت کے مطالعے سے معلوم ہوتی ہے:وَإِذَا سَمِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَى الرَّسُولِ تَرَى أَعْیُنَہُمْ تَفِیضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوا مِنَ الْحَقِّ یَقُولُونَ رَبَّنَا آمَنَّا فَاکْتُبْنَا مَعَ الشَّاہِدِینَ (5:83)۔ یعنی اور جب وہ اس کلام کو سنتے ہیں جو رسول پر اتارا گیا ہے تو تم دیکھو گے کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں، اس سبب سے کہ انھوں نے حق کو پہچان لیا۔ وہ پکار اٹھتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہم ایمان لائے۔ پس تو ہم کو گواہی دینے والوں میں لکھ لے۔
ایمان قبول کرنے کے بعد جب کوئی انسان اللہ رب العالمین کو شعوری دریافت کے درجے میں پاتا ہے، تو اس کے بعد اس کے اندر ایک ذہنی عمل (intellectual process) شروع ہوجاتا ہے۔ اس عمل کا حوالہ قرآن میں ان الفاظ میں دیا گیا ہے:أَلَمْ تَرَ کَیْفَ ضَرَبَ اللَّہُ مَثَلًا کَلِمَةً طَیِّبَةً کَشَجَرَةٍ طَیِّبَةٍ أَصْلُہَا ثَابِتٌ وَفَرْعُہَا فِی السَّمَاءِ۔ تُؤْتِی أُکُلَہَا کُلَّ حِینٍ بِإِذْنِ رَبِّہَا وَیَضْرِبُ اللَّہُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَتَذَکَّرُونَ (14:24-25)۔ یعنی کیا تم نے نہیں دیکھا، کس طرح مثال بیان فرمائی اللہ نے کلمۂ طیبہ کی۔ وہ ایک پاکیزہ درخت کی مانند ہے، جس کی جڑ زمین میں جمی ہوئی ہے اور جس کی شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں۔ وہ ہر وقت پر اپنا پھل دیتا ہے اپنے رب کے حکم سے۔ اور اللہ لوگوں کے لئے مثال بیان کرتا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔
قرآن کی اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ جب کسی انسان کو دریافت (discovery)کے درجے میں ایمان ملتا ہے تو اس کا فطری نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی کے اندر ایک پراسس جاری ہوجاتا ہے، وہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ ہر تجربے اور مشاہدے کو اپنی شخصیت کے ارتقا کا جزء بنا سکے۔ اس طرح یہ عمل (process) جاری رہتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کی شخصیت ایک ربانی شخصیت بن جاتی ہے۔