سجدہ ذریعۂ قربت
قرآن میں ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے:کَلَّا لَا تُطِعْہُ وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ (96:19)۔ یعنی ہرگز نہیں، اس کی بات نہ مان اور سجدہ کر اور قریب ہوجا۔ قرآن کی اس آیت میں سجدہ سے مراد اس کا فارم نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد وہ سجدہ ہے، جو سجدہ کی اسپرٹ سے بھرا ہوا ہو۔ سجدہ ایک علامتی فعل ہے۔ سجدہ کسی بندہ کی طرف سے اس بات کی علامت ہے کہ وہ آخری حد تک یکسو ہو کر اللہ کو یاد کرنے والا بن گیا ہے۔ اس نے آخری حد تک اپنے آپ کو اللہ کی طرف متوجہ کر لیا ہے۔ سجدہ اس بات کا عملی عزم ہے کہ بندہ اپنی یکسوئی میں کسی بھی بات سے ڈسٹریکٹ ہونے والا نہیں۔
لا تطعہ (اس کی اطاعت نہ کرو)- یہاں اطاعت کا لفظ شدتِّ اظہارکے معنی میں ہے۔ وہ بندہ کے اس عزم کو بتاتا ہے کہ بندہ اس حد تک یکسو ہو چکا ہے کہ اللہ کے معاملے میں کوئی شیطانی وسوسہ یا کسی انسان کی غوغا آرائی اس کو ڈسٹریکٹ کرنے والی نہیں۔ اس کی سوچ اللہ والی سوچ ہوگی۔ اس کے جذبات اللہ والے جذبات ہوں گے۔ اس کا رخ اللہ کی طرف ہوگا۔ اس کی تمنائیں اللہ کے لیے وقف ہوں گی۔ وہ سوچے گاتو اللہ کے لیے سوچے گا، اور کرے گا تو اللہ کے لیےکرے گا۔ سجدہ سپردگی (submission) کی علامت ہے۔ کسی کے آگے سر زمین پر رکھنا اس بات کا اظہار ہے کہ آدمی نے پوری طرح اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کردیا ہے۔سر زمین پر رکھنے کے بعد آدمی کے پاس کوئی چیز حوالہ کرنے کے لیے باقی نہیں رہتی۔
جب آدمی اپنا سر زمین پر رکھتا ہے تو یہ اس کے لیے سپردگی اور سرینڈر (surrender) کے معاملے میں کامل یکسوئی کا اظہار ہوتا ہے۔ سجدہ اس بات کی علامت ہے کہ بندہ نے انسانوں سے اپنی سوچ کو ہٹا لیا ہے۔ اس نے پورے معنوں میں خدا رخی زندگی (God-oriented life) اختیار کر لی ہے۔ اس نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ کسی بھی ڈسٹریکشن کی بات کو یہ موقع نہیں دے گا کہ وہ اس کو خدا رخی زندگی سے ہٹائے۔