معرفت حق
قرآن میں ایک گروہ کے قبول اسلام کا ذکر کیا گیا ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں:وَإِذَا سَمِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَى الرَّسُولِ تَرَى أَعْیُنَہُمْ تَفِیضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوا مِنَ الْحَقِّ یَقُولُونَ رَبَّنَا آمَنَّا فَاکْتُبْنَا مَعَ الشَّاہِدِینَ۔ وَمَا لَنَا لَا نُؤْمِنُ بِاللَّہِ وَمَا جَاءَنَا مِنَ الْحَقِّ وَنَطْمَعُ أَنْ یُدْخِلَنَا رَبُّنَا مَعَ الْقَوْمِ الصَّالِحِینَ (5:83-84)۔ یعنی اور جب انھوں نےاس کلام کو سنا، جو رسول پر اتارا گیا ہے تو تم دیکھو گے کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے، اس سبب سے کہ انھوں نے حق کو پہچان لیا۔ وہ پکار اٹھے کہ اے ہمارے رب ہم ایمان لائے۔ پس تو ہم کو گواہی دینے والوں میں لکھ لے۔
قرآن کیا ہے۔ قرآن فطرت انسانی کا بیان ہے۔ جو لوگ اس فطرت کو زندہ رکھیں، جو حق کے متلاشی ہوں، جو تخلیق خداوندی میں غور کرنے والے ہوں، ان کی فطرت زندہ فطرت ہوتی ہے۔ وہ جب اللہ کے کلام کو سنتے ہیں، تو وہ ان کو اپنے دل کی آواز معلوم ہوتا ہے۔ وہ اللہ کے کلام میں اپنے فطرت کی آواز سن لیتے ہیں۔ ان کو اللہ کا کلام اپنی فطرت کا کاؤنٹر پارٹ (counterpart) نظر آتا ہے۔ اللہ کا کلام ان کے لیے سچائی کی دریافت بن جاتا ہے۔ معرفت کے اس تجربے کا ذکر قرآن کی ایک اور آیت میں اس طرح کیا گیاہے۔
اس آیت کا ترجمہ یہ ہے: اللہ آسمانوں اور زمین کی روشنی ہے۔ اس کی روشنی کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق اس میں ایک چراغ ہے۔ چراغ ایک شیشہ کے اندر ہے۔ شیشہ ایسا ہے جیسے ایک چمک دار تارہ۔ وہ زیتون کے ایک ایسے مبارک درخت کے تیل سے روشن کیا جاتا ہے جو نہ شرقی ہے اور نہ غربی۔ اس کا تیل ایسا ہے گویا آگ کے چھوئے بغیر ہی وہ خود بخود جل اٹھے گا۔ روشنی کے اوپر روشنی۔ اللہ اپنی روشنی کی راہ دکھاتا ہے جس کو چاہتا ہے۔ اور اللہ لوگوں کے لئے مثالیں بیان کرتا ہے۔ اور اللہ ہر چیز کو جاننے والا ہے (24:35) - سچائی کی اسی دریافت کا نام معرفت ہے۔ جو لوگ اس معرفت پر کھڑے ہوجائیں، وہ اللہ کے مومن بندے ہیں۔