حکمت کا سر چشمہ

قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے:وَاتَّقُوا اللَّہَ وَیُعَلِّمُکُمُ اللَّہُ وَاللَّہُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیمٌ (2:282)۔ یعنی اور اللہ سے ڈرو، اللہ تم کو سکھاتا ہے اور اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ تقویٰ علم یعنی حکمت کے حصول کا ذریعہ بنتا ہے۔ ایسا کیوں کر ہوتا ہے۔ اس کی حقیقت ایک حدیث کے مطالعے سے معلوم ہوتی ہے۔ ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نےکہا: رَأسُ الحِکمَة مَخافَةُ اللَّہِ عز وجل (شعب الایمان للبیہقی، حدیث نمبر 730)۔ یعنی حکمت کا سرا، اللہ کا خوف ہے۔

خوف خدا کیا ہے! خوف خدا در اصل یہ ہے کہ آدمی کو اللہ رب العالمین کی دریافت اس طرح ہوجائے کہ اس کو برابر خدا کی موجودگی (presence of God) کا تجربہ ہونے لگے۔ جس آدمی کو اپنی زندگی میں اس طرح کا زندہ تجربہ ہونے لگے، وہ مسلسل طور پر اس احساس میں جینے لگتا ہے کہ خدا اس سے پوری طرح باخبر ہے، اور وہ انسان کے تمام قول و فعل کا حساب لے گا۔

جو آدمی اس طرح موجودگی ٔرب کے احساس میں جینے لگے، اس کے لیے یہ ناممکن ہوجاتاہے کہ وہ اپنی زندگی کے معاملات میں بے خوفی کی زندگی گزارے۔ وہ ہر قول اور فعل سے پہلے ہمیشہ یہ سوچے گا کہ کیا میں اللہ رب العالمین کے سامنے اپنے اس قول و فعل کے لیے مبرر (justification) دے پاؤں گا۔ کیا اللہ اپنے علم کی روشنی میں مجھ کو درست قرار دے گا، یا ایسا ہوگا کہ اللہ مجھ کو پوچھے گا کہ تم نے ایسا کیوں کہا، تم ایسا کیوں بولے، تم نے ایسا فعل کیوں انجام دیا، وغیرہ۔ یہ احساس آدمی کو خود اپنے اوپر نگراں بنا دے گا۔دوسرے خواہ اس سے پوچھیں یا نہ پوچھیں، وہ خود اپنے آپ سے پوچھے گا کہ تم نے ایساکیوں کہا، تم نے ایسا کیوں کیا۔ جب آدمی کے اندر ایسی حساسیت جاگ اٹھے تو اس کے اندر خود بخود موضوعی سوچ (objective thinking) پیداہوجاتی ہے، وہ وہی بولتا ہے، جو اس کو بولنا چاہیے، وہ وہی کرتا ہے، جو اس کو کرنا چاہیے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom