عارف انسان

قرآن میں ایک واقعہ کا ذکر ان الفاظ میں آیا ہے:وَإِذَا سَمِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَى الرَّسُولِ تَرَى أَعْیُنَہُمْ تَفِیضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوا مِنَ الْحَقِّ یَقُولُونَ رَبَّنَا آمَنَّا فَاکْتُبْنَا مَعَ الشَّاہِدِینَ، وَمَا لَنَا لَا نُؤْمِنُ بِاللَّہِ وَمَا جَاءَنَا مِنَ الْحَقِّ وَنَطْمَعُ أَنْ یُدْخِلَنَا رَبُّنَا مَعَ الْقَوْمِ الصَّالِحِینَ (5:83-84)۔ یعنی اور جب انھوں نے اس کلام کوسنا جو رسول پر اتارا گیا ہے تو تم دیکھو گے کہ ان کی آنکھوں سے آنسوبہہ پڑے، اس سبب سے کہ انھوں نے حق کو پہچان لیا۔ وہ پکار اٹھتے ہیں کہ اے ہمارے رب، ہم ایمان لائے۔ پس تو ہم کو گواہی دینے والوں میں لکھ لے۔ اور ہم کیوں نہ ایمان لائیں اللہ پر اور اس حق پر جو ہمیں پہنچا ہے جب کہ ہم یہ آرزو رکھتے ہیں کہ ہمارا رب ہم کو صالح لوگوں کے ساتھ شامل کرے۔

یہ واقعہ ایک مسیحی گروپ کا ہے، جو پیغمبر اسلام سے ملنے کے لیے حبش سے مدینہ آئے تھے۔ اس مثال کے ذریعہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ کلام الٰہی کا سننا،ان کے لیے ایک گہراروحانی تجربہ (spiritual experience) بن گیا۔ اس روحانی تجربے کی کچھ علامتیں یہ ہیں - (1) گہرے تاثر کے ساتھ کلام اللہ کو سننا۔ (2) اس کے ذریعہ وحی الٰہی کی پہچان ہوجانا۔ (3)اس کو سننے کے بعد آنکھوں سے آنسو جاری ہونا۔ (4) معرفت کے زیر اثر یہ کہہ اٹھنا کہ خدایا ہم نے اس حق کو قبول کیا۔ (5)سننے کے بعد دل سے اس کی تصدیق کرنے والے بن جانا۔ (6)کسی چیز کو قبول حق کی راہ میں رکاوٹ نہ بننے دینا۔ (7) کلام اللہ کو سنتے ہی یہ طلب پیدا ہوجانا کہ وہ اس گروہ میں شامل ہوجائیں، جنھوں نے اس کلام کو سن کر فوراً مثبت رسپانس (positive response) دیا۔ اس تاثر کا تعلق یکساں طور پرسماعت قرآن سے بھی ہے، اور مطالعہ قرآن سے بھی۔

یہ تمام علامتیں ایک لفظ میں معرفت قرآن کی علامتیں ہیں۔ اصل یہ ہے کہ قرآن پورا کا پورا فطرت کی زبان میں ہے۔ قرآن ہر آدمی کے لیے اس کی فطرت کا مثنیٰ (counterpart) ہے۔ قرآن کا سننا ہر آدمی کے لیے اس کی داخلی شہادت بن جاتا ہے۔ خاص طور پر جو لوگ اپنی فطرت کو زندہ رکھیں، ان کے لیے تو قرآن ایسی کتاب ہے کہ اس کو پڑھتے یا سنتے ہی انھیں محسوس ہوتا ہے کہ ان کی فطرت میں چھپی ہوئی روشنی اچانک روشن ہوگئی۔ یہی وہ حقیقت ہے جو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے:یَکَادُ زَیْتُہَا یُضِیءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْہُ نَارٌ نُورٌ (24:35)۔ یعنی اس کا تیل ایسا ہے گویا آگ کے چھوئے بغیر ہی وہ خود بخود جل اٹھے گا۔

اس فطری مطابقت کی بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ جس آدمی کو قرآن کی سچی معرفت ہوجائے، اس کے لیے قرآن معرفت حق (realization of truth)کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ اس کے بعد اس کی سوئی ہوئی فطرت بیدار ہوجاتی ہے۔ اس کے اندر ایک نئی ربانی شخصیت کی تعمیر شروع ہوجاتی ہے۔ یہ تعمیر شخصیت بڑھتے بڑھتے یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ ساری کائنات اس کے لیے رزق ربانی کا دسترخوان بن جاتی ہے۔

قرآن میں اس نوعیت کے حوالے کثرت سے موجود ہیں۔ ان کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جس انسان کی زندگی میں قرآن اس طرح داخل ہوکہ اس کی فطرت کے تمام دروازے کھل جائیں، اس کی دماغ کی تمام کھڑکیاں خدائی الہامات (divine inspiration) کوبے روک ٹوک وصول کرنے لگیں۔ ایسا انسان ایک نیا انسان بن جاتا ہے۔ قرآن اس کے لیے ہوجاتا ہے، اور وہ قرآن کے لیے۔

یہ ضروری نہیں ہے کہ آپ عربی زبان میں فنی مہارت پیدا کریں، اور پھرمفروضہ علوم قرآن کے عالم بن جائیں تو آپ کو فہم قرآن حاصل ہو۔ بلکہ فہم قرآن یہ ہے کہ قرآن آپ کو اتنی گہرائی کے ساتھ متاثر کرے کہ آپ کی فطرت کی کھڑکیاں کھل جائیں۔ آپ قرآن کو ساری کائنات میں پڑھنے لگیں۔ جس طرح پھولوں میں شہد کی مکھی کے لیے نکٹر ہوتا ہے، اسی طرح مومن کے لیے ساری دنیا میں حق کا نکٹر (nectar of truth) موجود ہے۔ قرآن جب کسی انسان کو اس طرح متاثر کرے کہ کائنات میں چھپے ہوئے حق کے نکٹر اس کو ملنے لگیں، تو اس کے بعد اس کے اندر ایک نئی شخصیت بننے لگتی ہے، ربانی شخصیت، جس کو جنت کے ابدی باغوں میں جگہ دی جائے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom