افضل ایمان
ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے:عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ:قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:إِنَّ أَفْضَلَ الْإِیمَانِ أَنْ تَعْلَمَ أَنَّ اللَّہَ مَعَکَ حَیْثُمَا کُنْتُ (المعجم الاوسط للطبرانی، حدیث نمبر 8796)۔ یعنی عبادہ بن الصامت سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: بیشک افضل ایمان یہ ہے کہ تم یہ جانو کہ یقیناً اللہ تمھارے ساتھ ہے، تم جہاں بھی ہو۔
اس حدیث میں علم کا لفظ آیا ہے۔ یہاں علم سے مراد معرفت ہے۔ ایسی معرفت کسی انسان کو کیسے حاصل ہوتی ہے۔ وہ اس ایمان کے ذریعے حاصل ہوتی ہے، جو آدمی کو دریافت (discovery) کے ذریعے حاصل ہوا ہو۔ جب ایک آدمی غور و فکر کی زندگی اختیار کرتا ہے۔ وہ دنیا میں اس طرح زندگی گزارتا ہے کہ اللہ کی تخلیقات میں برابر سوچتا رہتا ہے۔ اس کا ایمان صرف عقیدہ نہیں ہوتا، بلکہ وہ اس کے لیے تدبر (contemplation) بن جاتاہے۔اس تدبرسے اس کو برابر تخلیقات میں اللہ کے وہ کرشمے دریافت ہوتے رہتے ہیں، جن کو قرآن میں آلاء اللہ کہا گیا ہے۔یہی وہ دریافتیں ہیں، جو ایک مومن انسان کو عارف انسان بنادیتی ہے۔
اس معرفت کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ہر لمحہ اللہ کی یاد میں جینے لگتا ہے۔ اس کو ہر لمحہ اللہ کی موجودگی (presence) کا تجربہ ہوتا رہتا ہے۔ اس کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ برابر اللہ کے ساتھ ہے، اور اللہ اس کے ساتھ ہے۔ افضل ایمان کا مطلب دوسرے لفظوں میں یہ ہے کہ اللہ کےنزدیک مطلوب ایمان۔ اللہ کا مطلوب ایمان یہ نہیں ہے کہ آدمی تلفظ کے صحت کے ساتھ کلمہ کے الفاظ کو اپنی زبان سے ادا کرلے۔ بلکہ اللہ کا مطلوب ایمان یہ ہے کہ آدمی ایمان کی معنوی حقیقت میں جینے لگے۔ ایمان اس کے لیے حدیث کے الفاظ میں ذائقہ (taste)بن جائے (صحیح مسلم، حدیث نمبر34)۔ ایمان اس کے لیے غذا کا درجہ حاصل کرلے۔ ایمان اس کے لیے روحانی توانائی (spiritual energy) کی حیثیت اختیار کرلے۔