ایمان بالغیب
اسلام کی ایک تعلیم قرآن میں ان الفاظ میں آئی ہے: الم،ذَلِکَ الْکِتَابُ لَا رَیْبَ فِیہِ ہُدًى لِلْمُتَّقِینَ۔ الَّذِینَ یُؤْمِنُونَ بِالْغَیْبِ (2:1-3)۔ یعنی الم، یہ اللہ کی کتاب ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ راہ دکھاتی ہے ڈر رکھنے والوں کو، جو یقین کرتے ہیں بن دیکھے۔
اس آیت میں ایمان بالغیب سے مراد بلائنڈ فیتھ (blind faith) نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایمان جو مطالعہ اور غور و فکر کے نتیجے میں مومن کے اندر بطور واقعہ وجود میں آئے۔ایمان ابتدائی طور پر ایک حقیقت کو ماننے کا نام ہے۔انسان جب اس حقیقت کو مان لے تو فطری طو رپر اس کے اندر ایک پراسس شروع ہوجاتا ہے۔ جب ایک انسان اللہ کے وجود کو مان لے، تو فطری طور پر ایسا ہوتا ہے کہ وہ اللہ کے بارے میں ہر ممکن ذریعے سے مطالعہ اور تحقیق شروع کردیتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ اس حد تک پہنچ جاتا ہے، جس کو دریافت (discovery) کہا جاتا ہے۔ یہ وہ درجہ ہے، جب کہ مومن کا لفظی اقرار اس کی پوری ہستی کا لازمی حصہ بن جاتا ہے۔
اللہ کے بارے میں اس کی دریافت اس حد تک پہنچ جاتی ہے کہ وہ گویا کہ اس کو دیکھنے لگتا ہے(أَنْ تَعْبُدَ اللَّہَ کَأَنَّکَ تَرَاہُ) صحیح البخاری، حدیث نمبر50۔ بظاہر نہ دیکھتے ہوئے بھی وہ اس پر دیکھنے کی مانند یقین کرنے لگتا ہے۔ قرآن کی ایک آیت سے اس معاملے کی مزید وضاحت ہوتی ہے۔ اس آیت کا ترجمہ یہ ہے: جو کھڑے اور بیٹھے اور اپنی کروٹوں پر اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور کرتے رہتے ہیں۔ (وہ کہہ اٹھتے ہیں ) اے ہمارے رب، تو نے یہ سب بےمقصد نہیں بنایا(3:191)۔ اس آیت کو دیکھیے، ایک سچے انسان کے لیے غور و فکر کے بعد یہ واقعہ پیش آتا ہے کہ وہ ’’کہہ اٹھتے ہیں ‘‘، لیکن قرآن میں ’’کہہ اٹھتے ہیں ‘‘ کو حذف کردیا گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایمان کے بعد ان کے اندر غور وفکر کا جو گہرا پراسس جاری ہوتا، وہ نتیجے تک پہنچتے پہنچتے اتنا شدید ہوتا ہے کہ گویا وہ چیخ اٹھتے ہیں:رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہَذَا بَاطِلًا۔