خدا کی پہچان

خدا کو پہچاننے کے بہت سے پہلو ہیں۔ اگر کوئی خدا کو پہچاننا چاہے، تو ان پہلوؤں سے خدا کو دریافت کرسکتا ہے۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ فطرت کے نظام کا تقابل انسانی نظام سے کیا جائے۔

محمّد بن الحسن الفتال (وفات 508ھ) ایک مشہور عالم ہیں، ان کی ایک مشہور کتاب ہے، اس کا نام ہے روضة الواعظین۔ انھوں نے اس کتاب میں علی ابن ابی طالب کے حوالے سے ان کا ایک قول نقل کیا ہے:قال أبو جعفر:قام رجل، فقال: یا أمیر المؤمنین بماذا عرفت ربک؟ قال:بفسخ العزائم ومنع الہمة لما ان ہممت بأمر فحال بینی وبین ہمتی، وعزمت فخالف القضاء عزمی، علمت أن المدبر غیری (روضۃ الواعظین، صفحہ نمبر 30)۔ یعنی ابوجعفر نے کہا: ایک آدمی کھڑا ہوا، اس نے پوچھا: اے امیر المومنین، آپ نے اپنے رب کو کیسے پہچانا۔ علی نے کہا: پختہ عزم کے ٹوٹنے، اور ارادے کےناتمام رہنے سے۔ میں نے ایک کام کرنے کا ارادہ کیا توکوئی میرے اور میرے ارادے کے درمیان حائل ہوگیا۔ میں نے ایک عزم کیا، تو تقدیر میرے عزم کے خلاف گئی۔ اس سے میں نے یہ جانا کہ تدبیر کرنے والا میرے علاوہ کوئی اور ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ میں نے اپنے رب کو پہچانا اپنے منصوبوں کے ٹوٹنے سے۔اس بات کو آج کل کی زبان میں اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ تقابل (comparison) کے اصول کو اپلائی کرکے اللہ کی معرفت حاصل کرنا ہے۔ یعنی خدا کے منصوبے جو فطرت (nature) میں کام کر رہے ہیں، ان کا تقابل انسان کے منصوبوں سے کیا جائے۔ اس تقابل سے معلوم ہوتا ہے کہ رب العالمین کے منصوبے زیرو ڈیفکٹ مینجمنٹ (zero-defect management) کی سطح پر جاری ہیں۔ اس کے برعکس، انسان کے منصوبے سب کے سب کوشش کے باوجود زیرو ڈیفکٹ کے معیار پر پورے نہیں اترتے۔ موجودہ زمانے میں یہ دریافت ہوئی کہ فطرت (nature) کے تمام منصوبے زیرو ڈیفکٹ مینجمنٹ کی سطح پر چل رہے ہیں۔ مغرب کے ترقی یافتہ ملکوں میں کوشش کی گئی کہ انسان کی صنعت بھی زیرو ڈیفکٹ مینجمنٹ کے اصول پر چلائی جائے۔ لیکن اس معاملے میں کامل ناکامی ہوئی۔ یہ معاملہ انسان کی نگرانی میں چلنے والے بڑے سے بڑے آرگنائزیشن سے لے کر انفرادی سطح پر جاری تمام منصوبو ں میں دیکھا جاسکتا ہے۔

اس کی ایک مثال یہ ہے کہ میرے دفتر میں کچھ لوگ ملاقات کے لیے آئے۔ ان کے لیے چائے منگائی گئی۔ چائے پینے کے بعد چائے کے تمام برتن ایک ٹرے(tray)میں رکھ دیے گئے۔ یہ ٹرے میز کے ایک طرف رکھی ہوئی تھی۔ کسی وجہ سے پوری ٹرے فرش پر گر پڑی۔ ٹرے میں موجود ٹی سیٹ کے تقریبا دو درجن آئٹم تھے۔ سب کے سب نیچے گر کر ٹوٹ گئے۔اس تجربے کو آپ ایک اصول کے تحت لائیے:

In comparison that you understand

رب العالمین بیشمار چیزوں کو مینج کررہا ہے۔ لیکن کہیں بھی کوئی نقص نہیں، آتا۔ جیسا کہ قرآن میں آیا ہے:الَّذِی خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا مَا تَرَى فِی خَلْقِ الرَّحْمَنِ مِنْ تَفَاوُتٍ فَارْجِعِ الْبَصَرَ ہَلْ تَرَى مِنْ فُطُورٍ۔ ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ کَرَّتَیْنِ یَنْقَلِبْ إِلَیْکَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَہُوَ حَسِیرٌ (67:3-4)۔ یعنی جس نے بنائے سات آسمان اوپر تلے، تم رحمٰن کے بنانے میں کوئی خلل نہیں دیکھو گے، پھر نگاہ ڈال کر دیکھ لو، کہیں تم کو کوئی خلل نظر آتا ہے۔ پھر بار بار نگاہ ڈال کر دیکھو، نگاہ ناکام تھک کر تمہاری طرف واپس آجائے گی۔اس خدائی مینجمنٹ کے مقابلے میں انسانی کوششوں کو دیکھئے۔انسان جب ایسا کرتا ہے تو وہ بہت ساری چیزوں کو کھودیتا۔ اب انسان غور کرے گا تو اس کو یہ دریافت ہوگا کہ اس کائنات کا بہت بڑا حی و قیوم خدا ہے۔

خدا مشاہدہ (observation) میں نہیں آتا مگر خدا تجربہ کے اعتبار سے ضرور ایک معلوم حقیقت ہے۔ انسان کے اندر اگر حقیقت پسندانہ مزاج ہو تو بلا شبہ وہ خدا کے وجود کا اقرار کرے گا۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom