عطیات خداوندی

ایک طویل حدیث رسول مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ اس کا ایک حصہ یہ ہے:وکلکم فقیر إلا من أغنیت فسلونی أرزقکم (سنن الترمذی، حدیث نمبر2495)۔ یعنی اے میرے بندو، تم سب کے سب محتاج ہو مگر وہ جس کو میں عطا کروں،اس لیے تم مجھ سے مانگو میں تم کو رزق عطا کروں گا۔

اس حدیث رسول کا تعلق صرف غریب اور امیر سے نہیں ہے، بلکہ انسان کی تمام ضرورتوں سے ہے۔ انسان ایک ضرورت مند مخلوق ہے۔ اس کی بے شمار ضرورتیں ہیں۔ لیکن کسی بھی ضرورت کو وہ خود پورا نہیں کرسکتا۔ وہ اپنی ہر ضرورت کے لیے محتاج ہے کہ خالق اس کو مسلسل طور پر پورا کرے۔ اگر خالق کی طرف سے اس کی ضرورتوں کو پورا کرنے کا انتظام نہ ہو تو انسان کا حال یہ ہوگا کہ وہ ضرورت مند تو ہوگا لیکن وہ اپنی کسی بھی ضرورت کو خود سے پورا کرنے پر قادر نہ ہوگا۔ یہ پہلو انسان کے لیےایک ایسا پہلو ہے کہ وہ ہر وقت دعا اور شکر میں مشغول ر ہے۔

مثلا ً انسان کے پاس آنکھیں ہیں، لیکن آنکھ سے دیکھنے کے لیے اس کو روشنی کی ضرورت ہے، اور روشنی خالق کی طرف سے مسلسل دی جارہی ہے، تب وہ اس قابل ہوتا ہے کہ وہ اپنی آنکھ سے ہر چیز کو دیکھے۔ انسان کے پاس کان ہے، لیکن سننے کے لیے اس کو ہوا کی ضرورت ہے، اور ہوا کا مسلسل انتظام خالق کی طرف سے کیا جاتا ہے۔ انسان کے پاس نظام ہضم ہے، لیکن غذا کی فراہمی خالق کی طرف سے کی جارہی ہے، ورنہ انسان نظام ہضم کے باوجود بھوکا پڑا رہے گا۔ انسان کے جسم میں 78 آرگن (organs) ہیں، جو انسان کو مسلسل طورپر زندہ رکھتے ہیں، مگر ان آرگن کو متحرک رکھنے کا انتظام صرف خالق کی طرف سے کیا جاتا ہے،ورنہ انسان زندہ اور صحت مند نہ رہے، وغیرہ۔

یہ فہرست اتنی ہی وسیع ہے، جتنا کہ کائنات وسیع ہے۔ انسان اگر ان خدائی انتظامات کے بارے میں سوچے تو وہ ہر لمحہ شکر خداوندی میں غر ق رہے۔ وہ ایک لمحے کے لیے بھی ذکر خداوندی سے غافل نہ ہو،وہ الَّذِینَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّہ (2:165)کا مصداق بن جائے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom