دعوت سے بے خبری

ماہنامہ ترجمان القرآن میں ایک واقعہ ان الفاظ میں نقل کیا گیا ہے:’’غازی علم الدین شہید‘‘ (1908-1929) نے [شانِ رسالتؐ میں گستاخی پر مبنی کتاب کے ناشر] راج پال کو قتل (6 اپریل 1929ء) کیا توعلامہ محمد اقبال نے رشک کے ساتھ فرمایا:’’اسیں گلاں کر دے رہے تے ترکھاناں دا منڈا بازی لے گیا۔ (ہم باتیں کرتے رہ گئے، اور ایک بڑھئی کا بیٹا بازی لے گیا)۔‘‘ـماہنامہ ترجمان القرآن، دسمبر 2010 (عنوان: توہین رسالت کا مقدمہ)۔

اس واقعہ کوعام طور پر پسندیدگی کے انداز میں نقل کیا جاتا ہے۔ حالاں کہ وہ ایک قابل نقد بات ہے۔اقبال نے اس واقعہ کو سن کو جو کچھ کہا وہ اسلامی بات نہ تھی۔ صحیح یہ تھا کہ اقبال کہتے کہ اس مسلمان نے ڈبل غلطی کی۔ ایک یہ کہ اس نے خود ہی مذکورہ آدمی کو سزا دی۔ حالاں کہ اسلام میں سزا دینا صرف قائم شدہ عدالت کا کام ہے۔ اس کی دوسری غلطی یہ تھی کہ اس نے مذکورہ غیر مسلم کو مجرم کے روپ میں دیکھا، حالاں کہ اسلام کے مطابق اس کی حیثیت ایک مدعو انسان کی تھی۔ مذکورہ مسلم نوجوان کو چاہیے تھا کہ وہ اس آدمی کے لیے دعا کرے، وہ اس سے ملاقات کرکے گفتگو کرے، وہ اس کو سیرت کی کتابیں پڑھنے کے لیے دے۔

اس معاملے میں صحیح اسلامی موقف کو سمجھنے کے لیےایک واقعہ نقل کیا جاتا ہے: حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ میں اپنی مشرکہ ماں کو اسلام کی دعوت دیتا تھا۔ میں نے ایک دن انہیں دعوت دی تو اس نے رسول اللہ کے بارے میں مجھے ناپسندیدہ بات سنائی۔ میں رسول اللہ کے پاس روتے ہوئے پہنچا،اورکہا اے اللہ کے رسول، میں اپنی ماں کو اسلام کی دعوت دیتا تھا، مگر وہ قبول نہیں کرتی تھی۔ میں نے آج انہیں دعوت دی تو اس نے آپ کے بارے ناپسندیدہ بات کی، آپ اللہ سے دعا کریں کہ وہ میری ماں کو ہدایت دے۔ رسول اللہ نے دعا کی، اے اللہ ابوہریرہ کی ماں کو ہدایت دے۔ چناں چہ ابو ہریرہ کی ماں نے اسلام قبول کرلیا۔ (صحیح مسلم، حدیث نمبر1895)

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom