دلیل کے بغیر
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک نصیحت ان الفاظ میں آئی ہے: من کان یؤمن باللہ والیوم الآخر فلیقل خیرا أو لیصمت(صحیح البخاری، حدیث نمبر6018)۔ یعنی جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، تو اس کو چاہیے کہ وہ خیر کی بات کہے یا خاموش رہے۔
عربی زبان میں خیر کے معنی بھلائی کے ہوتے ہیں۔ قول کی نسبت سے یہاں اس کا مطلب مدلل بات (reason-based word) ہے۔ اس حدیث کا تعلق اجتماعی زندگی سے ہے۔ اجتماعی زندگی میں آدمی جب کسی کے بارے میں کوئی بات کہے تو وہ صرف بیانیہ انداز میں نہ ہو، اور نہ مدح اور ذم کے انداز میں، بلکہ مبنی بر ثبوت ہونا چاہیے۔ کہنے والے کے پاس اپنی بات کے لیے اگر ثابت شدہ دلیل (established proof) ہے، تو اس کو بولنے کا حق ہے، ورنہ ضروری ہے کہ وہ چپ رہے۔
اس معاملے میں آدمی کے پاس آپشن (option) بولنے یا نہ بولنے کے درمیان نہیں ہے۔ بلکہ صحیح آپشن یہ ہے کہ آدمی بولے تو دلیل کے ساتھ بولے، ورنہ وہ چپ رہے۔ دلیل ایسی ہونی چاہے جو ٹھوس دلیل ہو۔ دلیل وہ ہے جو خارجی طور پر ثابت ہوتی ہو۔ جو بات صرف کہنے والے کے اپنے ذہن کی بات ہو، وہ دلیل نہیں۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہ دلیل وہ ہے جو طرفین کے درمیان ثابت شدہ ہو۔ جو بات آدمی کے اپنے خیال کے مطابق اہم ہو، لیکن علم کے معیار پر وہ پوری نہ اترے، وہ دلیل نہیں ہے۔
دلیل کی زبان میں بولنا، قائل کے لیے بھی مفید ہے، اور سامع کے لیے بھی۔ سامع کے لیے اس لیے کہ اس کو موقع ملتا ہے کہ وہ اپنی غلطی پر متنبہ ہو، اور اس پر غور کرے، اور قائل کے لیےاس لیے کہ وہ جب دلیل کے انداز میں بولے گا تو یہ اس کے اپنے ذہنی ارتقا (intellectual development) کا ذریعہ بن جائے گا۔