اللہ کے ننانوے نام
حدیث میں آیا ہے کہ اللہ کے ننانوےنام ہیں (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2677)۔ سنن ابن ماجہ (حدیث نمبر 3861)میں ان ننانوے ناموں کو شمار کرکے بتایا گیا ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ جو شخص ان ناموں کا احصا کرے، وہ جنت میں داخل ہوگا۔ اس حدیث کا مطلب عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ ننانوے ناموں کو یاد کرلیا جائے، اور تسبیح پر ان کا شمار جاری رکھا جائے۔ تو اس عمل سے آدمی جنت میں داخل ہوگا۔ مگر یہ عمل ننانوے نام کا ایک مصغر مفہوم (کمترمفہوم)ہے۔
اصل یہ ہے کہ یہاں نام (اسماء) سے مراد صفات (attributes)ہیں۔ مزید یہ کہ ننانوے سے مراد گنتی نہیں ہے، بلکہ اس سےمراد یہ ہے کہ اللہ کی بے شمار صفتیں ہیں۔ ذکر سے مراو ورد نہیں ہے، بلکہ باربار زندہ شعور کے ساتھ اللہ کو یادکرنا ہے۔ یہ بار بار کی یاد کس طرح ہوتی ہے۔ اس کی صورت یہ ہے کہ اللہ کی آیات (نشانیوں )کو دریافت کرنا، اور ان کو پوائنٹ آف ریفرنس بنا کر برابر اللہ کی یاد کو اپنے ذہن میں تازہ کرتے رہنا۔ مثال کے طور پر قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے: وَیُسَبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمْدِہِ وَالْمَلَائِکَةُ مِنْ خِیفَتِہ (13:13)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک انسان جس کو اللہ کی معرفت حاصل ہو، وہ جب بجلی کی گرج (thunder) کو سنے گا، تو وہ اس کے لیے ایک پوائنٹ آف ریفرنس بن جائے گی۔ وہ اس کو لے کر خالق کی عظمت کو یاد کرے گا۔ اس کے اندر خالق کے لیے خوف اور محبت کا چشمہ جاری ہوجائے گا۔
ننانوے نام کا مطلب وہی ہے جس کو قرآن میں دوسرے مقامات پر آیات کہا گیا ہے۔ یعنی کائنات میں اللہ کی بے شمار نشانیاں (signs) پھیلی ہوئی ہیں۔ یہ نشانیاں ایک عارف انسان کے لیے اللہ کو یاد کرنے کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔ اس وقت وہ بے اختیارانہ طور پر اللہ کی یاد اور اس کی حمد میں مشغول ہوجاتا ہے۔ اس عمل سے اس کی شخصیت میں ربانی ارتقا ہوتا رہتا ہے، اور ربانی معرفت کے اعتبار سے یہی ارتقا یافتہ شخصیت وہ ہے جس کو ابدی جنت میں داخلہ ملے گا۔