بقدر استطاعت کا اصول
اسلام میں جو احکام ہیں، وہ سب کے سب بقدر استطاعت پر مبنی ہیں۔ یعنی ایک شخص کی ذمہ داری صرف اسی کی ہے جو اس کے بس میں ہو۔ جو چیز اس کے بس میں نہ ہو، اس کی ذمہ داری بھی اس پر نہیں۔
اجتماعی معاملات میں اس اصول کو دوسرے الفاظ میں اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ اگر کسی شخص کو کوئی صورت حال ایسی نظر آتی ہے، جو اس کے نزدیک قابل اصلاح ہے تو ایسے آدمی کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ عملی اقدام سے اپنے کام کا آغاز کرے۔ بلکہ یہ کرنا ہوگا کہ وہ حالات کوغیر جانب دارانہ انداز میں سمجھے، اور پھر اپنی طاقت کا غیر جذباتی طور پر اندازہ کرے۔ اس بے لاگ اندازہ کے بعد وہ یہ سوچے کہ اس موقع پر اگر میں عملی اقدام کروں تو اس کا نتیجہ کیا ہوگا۔ اگر اس کی یہ رائے ہو کہ وہ اپنے اقدام سے مثبت نتیجہ پیدا کرسکتا ہے تو اس کے لیے عملی اقدام کرنا جائز ہوگا، اور اگر مثبت نتیجہ مشتبہ ہو تو ایسی حالت میں اس کو ہرگز عملی اقدام نہیں کرنا چاہیے۔
اس سلسلے میں دوسری بات یہ ہے کہ عملی اقدام کے بعد درمیان میں اگر اس کو محسوس ہو کہ اس کا اقدام مثبت عملی نتیجہ پیدا کرنے میں ناکام ہور ہا ہے تو فوراً اس کو اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے پیچھے لوٹنا چاہیے۔ اس کے بعد اس کے لیے دو آپشن ہے۔ یا تو وہ اپنے آپ کو اقدام کے لیے نااہل قرار دیتے ہوئے، بالکل خاموش ہوجائے یا اگر اس کو غیر جذباتی اندازہ کے بعد یہ محسوس ہو کہ اس کی منصوبہ بندی (planning) غلط تھی، اور اس کے لیے ممکن ہے کہ وہ بہتر منصوبہ بندی کے ذریعہ دوبارہ کوئی مفید نتیجہ پیدا کرسکتا ہے، تب اس کے لیے جائز ہوگا کہ وہ حقیقت پسندانہ انداز میں اپنی کوشش کا دوبارہ آغاز کرے۔ نماز کی ادائیگی کا معاملہ ہو تو ہر آدمی آزاد ہے کہ وہ وقت آنے پر نماز ادا کرنے کے لیے کھڑا ہوجائے، لیکن اجتماعی زندگی کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ اجتماعی زندگی کا اصول یہ ہے کہ بے نتیجہ عمل سے بہتر ہے کہ آدمی کوئی عمل ہی نہ کرے۔