ری ایکشن کلچر

مادی دنیا کے قوانین میں سے ایک وہ ہے جس کو نیوٹن کی طرف منسوب کرکے، نیوٹنز تھرڈ لا کہا جاتا ہے:

Newton’s third law is: For every action, there is an equal and opposite reaction.

اصل میں یہ قانون تو فطرت کا قانون ہے۔مگر نیوٹن نے پہلی بار اس کو دریافت کیا تھا، اس لیے وہ نیوٹن کی طرف منسوب ہوگیا۔اس تیسرے قانون کا تعلق مٹیریل ورلڈ سے ہے۔یعنی مٹیریل ورلڈ میں ایسا ہوتا ہے۔مگر ہیومن ورلڈ میں ایموشن (emotion) شامل ہو جاتا ہے، اس لیے انسانی دنیا میں ہر ری ایکشن ری ایکشن پلس بن جاتا ہے۔یعنی ایموشن کی بنیاد پر ری ایکشن کی مقدار بہت بڑھ جاتی ہے۔غالباً یہی وہ حقیقت ہے جس کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَا تُصِیبَنَّ الَّذِینَ ظَلَمُوا مِنْکُمْ خَاصَّةً(8:25)۔یعنی اور ڈرو اس فتنہ سے جو خاص انھیں لوگوں پر واقع نہ ہوگا جو تم میں سے ظلم کے مرتکب ہوئے ہیں۔

کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ جن مقامات پر تشدد کے واقعات ہورہے ہیں۔ وہاں کچھ نوجوانوں نے پتھر پھینکا تھا، وہ ان کی غلطی ہوسکتی ہے۔ مگر جب فریق ثانی نے جوابی کارروائی کی تو انھوں نے ایسے لوگوں کو بھی مارڈالا جو اس میں براہ راست شریک نہ تھے۔مگر یہ سوچ درست سوچ نہیں۔ قرآن کے الفاظ میں ردعمل ہمیشہ زیادہ ہوتا ہے۔چناں چہ صرف ظالم اس کی زد میں نہیں آتے، بلکہ غیر ظالم بھی ضرور اس کی زد میں آ جاتے ہیں۔

قرآن کی اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ مادی دنیا میں ردعمل ہمیشہ عمل کے برابر ہوتا ہے، لیکن انسانی دنیا میں ایسا نہیں ہوتا۔ انسانی دنیا میں جب ردعمل کا واقعہ ہو گا تو وہ ہمیشہ ابتدائی عمل سے زیادہ ہوگا۔ اس لیے عمل کرنے والوں کو اس معاملے میں عمل سے پہلے بہت زیادہ سوچنا چاہیے۔ اقدام کے بعد جب نتیجہ سامنے آجائے اس وقت شکایت کی بولی بولنا، ایسا کلام ہے جو خواہ گرامر کے لحاظ سے درست ہو، لیکن حقیقت کے لحاظ سے وہ بلاشبہ سر تا سر بے معنی ہو تا ہے۔

بیل کو اگر آپ ایک پتھر ماریں تو اس کے بعد یہ شکایت بے معنی ہے کہ میں نے تو صرف ایک پتھر مارا تھا، بیل نے میرے اوپر دو سینگوں سے کیوں حملہ کردیا۔یا آپ یہ کہیں کہ ہم نے تو کچھ دستی بم پھینکے تھے، پھر فریق ثانی نے ہوائی بمباری کیوں کرڈالی، وغیرہ۔فطرت کے قانون کے مطابق اجتماعی زندگی میں شکایت (complain) بے معنی ہے۔

حقیقت کے اعتبار سے دیکھیے تو شکایت کا لفظ صرف ڈکشنری میں پایا جاتا ہے۔ حقیقت کی دنیا میں اس کا کوئی وجود نہیں۔ حقیقت کی دنیا اصلاً ایک بے شکایت دنیا ہے۔ شکایت اس وقت شروع ہوتی ہے جب کہ کوئی شخص ایک غلطی کرے، اور غلطی کا ذمہ دار اپنے آپ کو ٹھہرانے کے بجائے، اس کاذمہ دار دوسروں کو ٹھہرانے لگے۔

خدا کی بنائی ہوئی دنیا میں شکایت کا کوئی مقام نہیں۔ شکایت صرف وقت ضائع کرنے کے ہم معنی ہے۔ اگر آپ کو کسی سے شکایت پیدا ہوتی ہے تو خود اپنے اندر اس کا سبب ڈھونڈیے، اور ساری توجہ اپنی اصلاح پر لگایے۔ اپنی اصلاح کرکے آپ مفروضہ شکایت کا خاتمہ کرسکتے ہیں۔ شکایت کے موقعہ پر آدمی کو چاہیے کہ وہ حسن تدبیر کا طریقہ اختیار کرے۔ شکایت سے کوئی مسئلہ حل ہونے والا نہیں۔ شکایت عملاً صرف وقت ضائع کرنے کے ہم معنی ہے۔

رد عمل (reaction) ہمیشہ کسی عمل کے بعد پیدا ہوتا ہے۔ آپ کے عمل کے بعد دوسرے فریق کی طرف سے جو ردّعمل سامنے آئے، اس پر شکایت کرنا، بے فائدہ ہے۔ کوئی دوسرا آدمی آپ کی شکایت سے اپنے آپ کو ردّ عمل سے روکنے والا نہیں۔ رد عمل سے بچنے کا طریقہ صرف ایک ہے۔ وہ یہ کہ آپ اپنی طرف سے کوئی ایسا عمل نہ کریں، جس کا نتیجہ دوسروں کی طرف سے ردعمل کی صورت میں سامنے آئے۔آپ اپنی طرف سے پتھر نہ ماریں تو دوسروں کی طرف سے گولی بھی آنے والی نہیں۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom