مصیبت کا قانون
قرآن کی ایک آیت میں ابتلا (test) کا قانون بتایا گیا ہے۔ اس آیت کا ترجمہ یہ ہے: اور ہم ضرور تم کو آزمائیں گے کچھ خوف اور بھوک سے اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے۔ اور صبر کرنے والوں کو خوش خبری دے دو (البقرۃ:155)۔
قرآن کی اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ ہر انسان پر کوئی نہ کوئی مصیبت آئے گی۔ لیکن یہ مصیبت شَیْء یا کچھ (something)کی صورت میں ہوگی۔ اس آیت میں شیء (کچھ) کا لفظ بہت بامعنی ہے۔ اس بات کو اگر لفظ بدل کر کہا جائے تو یہ ہوگا کہ انسان کے اوپرجو مصیبت آئے گی، وہ اس کی ہلاکت کے لیے نہیں ہوگی، بلکہ وہ اس کی اصلاح و تربیت کے لیے ہوگی۔
اصل یہ ہے کہ مسائل دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جن کو کچلنے والا مسئلہ (crippling problem) کہا جائے گا، اور دوسرا وہ جس کو نہ کچلنے والا مسئلہ (non-crippling problem) کہا جائے گا۔ اللہ کے تخلیقی نقشے کے مطابق انسان پر جو مصیبت یا مسئلہ پیش آتا ہے، وہ نہ کچلنے والا مسئلہ ہوتا ہے، نہ کہ کچلنے والا مسئلہ۔ نہ کچلنے والا مسئلہ آدمی کے لیے ایک تجربہ ہوتا ہے۔ وہ آدمی کی تربیت کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ اس سے آدمی کو سیکھ (learning) حاصل ہوتی ہے۔ اس سے آدمی کی شخصیت میں پختگی پیدا ہوتی ہے۔ ایسے مسئلے میں مبتلا ہونے سے آدمی کی عقل میں اضافہ ہوتا ہے۔
اس کے برعکس، کچلنے والے مسئلہ کی صورت میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی اس کا تحمل نہیں کرپاتا۔وہ شدید قسم کی مایوسی میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ اس کی عقل کام نہیں کرتی۔ وہ حالات سے اوپر اٹھ کر سوچنے کے قابل نہیں رہتا۔ اللہ کی طرف سے آنے والی مصیبت چوں کہ انسان کی تربیت کے لیے ہوتی ہے، اس لیے وہ ہمیشہ نہ کچلنے والے مسئلہ کی صورت میں ا ٓتی ہے، نہ کہ کچلنے والے مسئلہ کی صورت میں۔ اس لیے اس ابتلاء کو اللہ کی رحمت کا معاملہ سمجھنا چاہیے، نہ کہ زحمت کا معاملہ۔