اجتہادی خطا کا معاملہ
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے امت مسلمہ کے بارے میں فرمایا تھا کہ وہ یہود کی تمام سنتوں کو اختیار کر لیں گے:لیأتین على أمتی ما أتى على بنی إسرائیل حذو النعل بالنعل(سنن الترمذی، حدیث نمبر 2641)۔ اس حدیث میں یہود کا حوالہ محض تاریخی مثال کے طور پر آیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دورِ زوال کا ظاہرہ ہے۔ جب بھی کسی امت کی بعد کی نسلوں میں زوال کا دور آتا ہے تو اس کے اندر مشترک قسم کی صفات پیدا ہوجاتی ہیں۔ یہ صفات قدیم زمانہ میں یہود (امت موسیٰ )کے اندر پیدا ہوئیں۔ یہی چیزیں بعد کے زمانہ میں مسلمان (امت محمد) کے اندر پیدا ہونے والی تھیں۔ اس لیے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور انتباہ (warning) پیشگی طور پر امت مسلمہ کے بارے میں یہ بات کہی۔
زوال کے زمانہ میں پچھلی قوموں کے اندر جو خرابیاں پیدا ہوئیں، ان میں سے ایک وہ ہے جس کو قرآن میں اس طرح بیان کیا گیا ہے:اتَّخَذُوا أَحْبَارَہُمْ وَرُہْبَانَہُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّہِ (9:31)۔ یعنی انھوں نے اپنے احبار و رہبان کو اللہ کے سوا اپنا رب بنالیا۔
قرآن کی اس آیت میں اتخاذ رب کا لفظ شدت اظہار کے معنی میں آیا ہے۔ اصل یہ ہے کہ بعد کے زمانہ میں یہود ی علماء و مشائخ نے بظاہر حسن نیت کے ساتھ اپنے ذاتی اجتہاد کے تحت کچھ طریقے اپنے دین میں اختیار کیے۔ یہودی علماء اور یہودی مشائخ کے یہ طریقے بعد کے زمانے میں مقدس بن گیے، اور یہود کی بعد کی نسلوں نے اس کو اس طرح اختیارکر لیا جیسے کہ وہ شریعت موسیٰ کا حصہ ہوں۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کو ایک حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: عن أبی موسیٰ الاشعری، قال:قال رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم:إن بنی إسرائیل کتبوا کتابا، فاتبعوہ، وترکوا التوراة (المعجم الاوسط للطبرانی، حدیث نمبر5548)۔بنی اسرائیل (یہود) نے کتاب لکھی، پھر اس کی پیروی کی، اور تورات کو چھوڑ دیا۔
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بعد کے زمانے میں امت مسلمہ کے اندر بھی عملاً ایسا ہی ہوا۔ کچھ مسائل میں امت کے اکابر نے ذاتی اجتہاد کے تحت ایک طریقہ اختیار کیا، اور بعد کے زمانے میں امت کے لوگوں نے اس کو مقدس بنا کر اس کو شریعت محمدی کا حصہ سمجھ لیا۔ حالاں کہ بعد کے علماء کا یہ فرض تھا کہ وہ کھلے طور پر یہ اعلان کریں کہ یہ ہمارے اکابر کا ذاتی اجتہاد تھا۔ جیسا کہ معلوم ہے اجتہاد میں کسی بھی شخص سے خطا ہوسکتی ہے۔ یہ ان لوگوں کی اجتہادی خطا تھی، اب ہم ان کو تاریخ ماضی کے خانہ میں ڈالتے ہیں، اور شریعت کے اصل حکم کی طرف واپس آتے ہیں۔ یہاں اس سلسلہ میں چند مثالیں دی جاتی ہیں:
1 - ان میں سے ایک تطلیقاتِ ثلاثہ کا مسئلہ ہے۔ اسلام میں نکاح کی حیثیت اصل (basic principle)کی ہے، اور طلاق کی حیثیت ایک نادر استثناء (rare exception) کی۔ مزید یہ کہ طلاق کا ایک مقرر طریقہ (prescribed method) ہے۔ یہ طریقہ قرآن (البقرۃ:229) میں واضح طور پر بتادیا گیا ہے۔
رسول اللہ اور اس کے بعد حضرت ابوبکر صدیق کے زمانے میں امت کے اندر یہی طریقہ رائج رہا۔ حضرت عمر فاروق کے زمانہ میں فراوانی (affluence) کا دور آیا۔ اس کے نتیجہ میں جو خرابیاں پیدا ہوئیں، ان میں سے ایک یہ تھی کہ ایسے واقعات پیش آئے جب کہ لوگوں نے ایک مجلس میں اپنی بیوی کو تین طلاق دے دیا۔ عمر فاروق نے اس رجحان پر روک لگانے کے لیے یہ کیا کہ کچھ افراد کو بلاکر کوڑے مارے، اور ساتھ ہی تین طلاق کو واقع کرکے زوجین کے درمیان تفریق کرادی۔
خلیفہ ٔ ثانی عمر فاروق نے یہ طریقہ حکمِ حاکم (executive order) کے طور پر اختیارکیا تھا۔ حکمِ حاکم کا اختیار بلاشبہ جائز ہے، لیکن اس کی حیثیت وقتی ہوگی۔جہاں تک طلاق کے شرعی حکم کا تعلق ہے، وہ وہی رہے گا جو قرآن (البقرۃ:229)میں مذکور ہے۔کسی حاکم کو شریعت کے قانون کو بدلنے کا حق نہیں۔ خلیفۂ ثانی نے اپنے زمانے میں جو طریقہ اختیار کیا تھا، بعد کے علماء کے لیے ضروری تھا کہ وہ اعلان کریں کہ یہ ایک وقتی حکم تھا۔ اس سے شریعت کا مسئلہ نہیں بدلتا۔ لیکن اس کے بجائے علماء نے یہ کیا کہ خلیفۂ ثانی کے اس فیصلہ کو ایک مستقل شرعی حکم بنا کر اسلامی فقہ میں شامل کردیا۔ یہ بلاشبہ ایک غلطی تھی، اور اب فرض کے درجہ میں ضروری ہے کہ علماء اس غلطی کی تصحیح کریں، اور یہ اعلان کریں کہ اب طلاق کا وہی طریقہ عملاً باقی رہے گا، جو قرآن میں مذکور ہے۔ اس کے خلاف جو فتاویٰ دیے گیے، وہ سب کے سب منسوخ قرار پائیں گے۔
2 - یہی معاملہ جزیہ کا تھا۔ جزیہ کا ذکر بلاشبہ قرآن میں موجود ہے۔ مگر وہ اسلام کے ابتدائی دور میں کچھ مخصوص گروہوں کے لیے وقتی طور پر بطور تعزیری ٹیکس (Punitive tax) اختیار کیا گیا تھا، وہ عام شرعی حکم نہ تھا کہ بعد کے زمانے میں بھی اس پر عمل کیا جائے۔ بعد کے زمانے میں اورنگ زیب جیسے جن مسلم سلاطین نے اس کو دوبارہ نافذ کیا، وہ ان کی اجتہادی خطا تھی۔ اب علماء کو یہ اعلان کرنا چاہیے کہ مسلم حکومتوں میں جزیہ کا طریقہ اختیار نہیں کیا جائے گا، بلکہ جنرل ٹیکس (general taxation) کا طریقہ اختیار کیا جائے گا جو کہ دوسرے تمام ملکوں میں رائج ہے۔
3 - یہی معاملہ شاتم رسول کی سزا کا ہے۔ مسلم فقہاء نے عام طور پر اتفاق کرلیا ہے کہ شتم رسول ایک قابل دست اندازی جرم (cognizable offence) ہے۔ایسے شخص کو بطور حد قتل کیا جائے گا: قال ابن المنذر: أجمع عوام أہل العلم على أن حد من سب النبی صلى اللہ علیہ وسلم القتل (الصارم المسلول على شاتم الرسول، ابن تیمیہ، صفحہ 3)۔ یعنی اکثر اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سب و شتم کیا، اس کی حد قتل ہے۔ اس مسئلہ میں اگرچہ بڑے بڑے علماء کے نام ہیں، لیکن یہ مسئلہ بلاشبہ ایک اجتہادی خطا کا مسئلہ ہے۔ اب علماء اسلام پر فرض کے درجہ میں ضروری ہے کہ وہ اعلان کریں کہ شاتم رسول کے قتل کا مسئلہ شرعی مسئلہ نہ تھا، وہ اجتہادی خطا کا مسئلہ تھا۔ اب ہم اس کو ہمیشہ کے لیے ختم کرتے ہیں۔ جس انسان کو شاتم رسول قرار دیا جاتا ہے، وہ زیادہ درست طور پر مدعو ہوتا ہے، اور مدعو کے لیے نصیحت اور دعوت ہے، نہ کہ قتل۔
4 - یہی معاملہ جہاد بالسیف کا ہے۔ قرآن میں جہاد بالسیف یا قتال کا حکم دیا گیا تھا۔ لیکن اس حکم کی ایک حد تھی۔ وہ کوئی ابدی حکم نہ تھا، جیسا کہ خود قرآن کی آیت سے واضح ہے: وَقَاتِلُوہُمْ حَتَّى لَا تَکُونَ فِتْنَةٌ (2:193)۔ قرآن کی اس آیت کے مطابق قتال کا حکم فتنہ کے ختم ہونے تک ہے۔ فتنہ ختم ہو جائے تو اس کے بعد قتال بھی ختم۔ فتنہ سے مراد مذہبی جبر (religious persecution) ہے۔ قدیم زمانہ میں فتنہ کا کلچر عام طور پر موجود تھا۔ لیکن موجودہ زمانہ میں خود یونیورسل نارم (universal norm) کے مطابق اس مذہبی فتنہ کا مکمل خاتمہ ہوچکا ہے۔ اس لیے اب فتنہ کے نام پر جنگ کا کوئی جواز نہیں۔ ایسی حالت میں موجودہ زمانے میں جن لوگوں نے جہاد بالسیف کا فتویٰ دیا، وہ سب کا سب اجتہادی خطا کا کیس تھا۔ افریقہ میں فرانس کے خلاف، ایشیا میں برٹش کے خلاف، فلسطین میں یہود کے خلاف، وغیرہ۔ اس قسم کے تمام فتاویٰ بلاشبہ اجتہادی خطا کے کیس تھے۔ اب فرض کے درجے میں ضروری ہے کہ علماء اس غلطی کا عمومی اعلان کریں۔ اس سے کم درجہ کی کوئی چیز اس معاملہ میں قابل قبول نہیں ہوسکتی۔
موجودہ زمانہ میں کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام میں اصلاح (reform) کی ضرورت پیش آگئی ہے۔ مگر یہ صرف غلط فہمی کی بنا پر ہے۔ اس سلسلہ میں جو مثالیں دی جاتی ہیں، ان کا تعلق خود اسلام سے نہیں ہے، بلکہ مسلمانوں کے اپنے اضافہ سے ہے۔ اس سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے اپنے اضافے سے اسلام کو پاک کرنے کی ضرورت۔ خود اسلام میں اصلاح یا نظر ثانی کی ضرورت اس سے ثابت نہیں ہوتی۔ (فکر اسلامی)
روزہ — اطاعتِ الٰہی کی مشق ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم ہر معاملہ میں اسی طرح خدا کے حکم کی پابندی کریں گے جس طرح رمضان میں کھانے پینے کے معاملے میں کرتے ہیں۔