قرآن، کتاب مہجور

قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آٗئی ہے: وَقَالَ الرَّسُولُ یَارَبِّ إِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوا ہَذَا الْقُرْآنَ مَہْجُورًا (25:30)۔ رسول کہے گا کہ اے میرے رب، میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑی ہوئی کتاب بنا دیا۔

قرآن کو کتاب مہجور (abandoned book) بنانے کا مطلب کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بعد کے زمانے میں امت ایسا کرے گی کہ وہ قرآن کو کسی اندھیرے گوشے میں ڈال دے، اور وہ اس سے کوئی تعلق نہ رکھے۔ امت خواہ اپنے دور زوال میں ہو تب بھی اس کے لیے ایسا کرنا بالکل ناممکن ہے۔ قرآن بعد کے زمانے میں امت کا فخر (pride) بن جاتا ہے۔ پھر کیسے کوئی امت ایسا کرسکتی ہے کہ وہ قرآن کو اپنے لیے ایک چھوڑی ہوئی کتاب بنادے۔

اصل یہ ہے کہ حالات ہمیشہ بدلتے رہتے ہیں۔ صرف زمانے کے اعتبار سے نہیں، بلکہ روز و شب کے اعتبار سے بھی۔ مثلا ًبنو قریظہ کی روایت (صحیح البخاری، حدیث نمبر946) کے مطابق چند گھنٹوں کے اندر بھی حالات بدل سکتے ہیں، اور نئے اجتہاد کی ضرورت پیش آسکتی ہے۔ اس لیے قرآن کو کتاب ہدایت بنانے کے لیے ضروری ہے کہ امت کے علماءاور رہنماء اجتہاد کی صلاحیت کے حامل ہوں۔ وہ ہر نئی صورت حال میں قرآن کی تطبیق نو (reapplication) تیار کرسکیں۔ وہ قرآن کی ابدی تعلیمات کی وقتی تفسیر دریافت کرتے رہیں۔

اس معاملہ میں صحیح تطبیق کےلیے ضروری ہے کہ آدمی وقت کے حالات کا نہایت صحیح اندازہ کرسکے۔ اگر وہ اپنی غیر حقیقت پسندانہ فکر کی بنا پر موافق صورت حال کو اپنے لیے مخالف صورت حال سمجھ لے۔ تو وہ بدلے ہوئے حالات میں قرآن کی صحیح تطبیق دریافت کرنے میں ناکام رہے گا۔ وہ کسی حکم کا ایسا مفہوم سمجھ لے گا، جس کا کوئی تعلق قرآن سے نہ ہوگا۔ اس بنا پر قرآن کی درست تطبیق کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کے اندر درست فکر موجود ہو۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom