ابلیس کا طریقہ
ابلیس جنا ت کا سردار تھا۔ قرآن و حدیث میں ابلیس کو برے کردار کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے، اور اس کو لعنت زدہ قرار دیا گیا ہے۔ قرآن و حدیث میں یہ تلقین کی گئی ہے کہ اہل ایمان ابلیس سے پناہ کی دعا کرتے رہیں۔ابلیس کا جر م کیا تھا۔ اس کا جرم یہ تھا کہ اس نے اللہ کے تخلیقی نقشہ (creation plan of God) کو اللہ کی نظر سے نہیں دیکھا، بلکہ خود اپنی نظر سے دیکھا۔ اس تخلیقی نقشے میں کیا حکمتیں شامل ہیں، اس پر اس نے غور نہیں کیا، بلکہ صرف ایک بات کو لے کر اس کا دشمن بن گیا کہ اس تخلیقی نقشے میں اس کے اپنے خیال کے مطابق اس کو کم درجہ دیا گیا ہے، اور آدم کو زیادہ بڑا درجہ (الاعراف12:)۔
یہ ابلیس کا طرز فکر ہے۔ اس طرز فکر سے انسان کے اندر وہ چیز پیدا ہوتی ہے جس کو منفی سوچ (negative thinking) کہا جاتا ہے۔ انسان اگر زندگی کے نظام کو خدائی نقشے کے مطابق سوچے تو اس کے اندر مثبت سوچ پیدا ہوگی۔ اس کے برعکس، اگر وہ زندگی کو صرف اپنے اعتبار سے سوچے تو وہ ہمیشہ منفی سوچ میں مبتلا رہے گا۔ کیوں کہ کہیں نہ کہیں اس کو نظر آئے گا کہ اس کے اپنے خیال کے مطابق اس کا جو درجہ ہے، وہ درجہ اس کو نہیں ملا۔ ایسے انسان کو یہ احساس ہمیشہ رہے گا، خواہ نظام کتنا ہی زیادہ درست کیوں نہ ہو۔
ابلیس کی غلطی یہ تھی کہ وہ منفی سوچ میں مبتلا ہوگیا، اور اتھاریٹی کے خلاف جھنڈا لے کر کھڑا ہوگیا۔ اس کے برعکس ملکوتی طرز فکر یہ ہے کہ آدمی کے حصے میں جو کچھ آیا ہے، وہ اس پر راضی رہے، اور یہ سمجھے کہ یہی اس کے لیے بہتر تھا (الخیر فیما وقع)۔ ایسا آدمی اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے پر دھیان دے گا۔ اس طرح وہ درست راستے پر رہے گا۔اس ملکوتی طرز فکرکےمقابلے میں دوسرا شخص وہ ہے، جو اتھاریٹی کے خلاف تحریک چلائے۔ ایسا شخص بلاشبہ غلط راستے پر ہے۔پہلا انسان سماج میں خیر لائے گا، اور دوسرا انسان صرف فساد کا سبب بنے گا۔