مومن قوی، مومن ضعیف
ایک حدیث رسول ہے:المؤمن القوی، خیر وأحب إلى اللہ من المؤمن الضعیف، وفی کل خیر (صحیح مسلم، حدیث نمبر2664)۔ یعنی طاقت ور مومن اللہ کے نزدیک کمزور مومن کے مقابلے میں بہتر اور زیادہ محبوب ہے، اور ہر ایک کےلیے خیر ہے۔
انسان پیدائشی طور پر دو قسم کے ہوتے ہیں، طاقت ور اور کمزور۔ اس لیے اہل ایمان میں بھی دو قسم کے افراد ہوسکتے ہیں۔ تاہم جس طرح طاقت ور مومن کے لیے خیر ہے، یعنی وہ زیادہ بڑے کام کرسکتا ہے۔ اسی طرح کمزور مومن کے لیے بھی خیر ہے۔ بشرطیکہ اس کے اندر سچی ایمانی اسپرٹ پائی جائے۔طاقت ور مومن کے لیے خیر یہ ہے کہ وہ اپنی طاقت کی بنا پر دین کے لیے زیادہ بڑے بڑے کام کرسکتا ہے۔ لیکن اللہ کا عطیہ یہیں تک محدود نہیں۔ اللہ کا عطیہ اتنا وسیع ہے کہ کمزور مومن اگر استحقاق پیدا کرے تو وہ بھی اعلیٰ خیر تک پہنچ سکتا ہے۔
اس کا سبب یہ ہے کہ اگرسچی اسپرٹ ہوتو کمزور مومن کچھ مزید صفات کا حامل ہوجاتا ہے۔ مثلا کمزور مومن میں تواضع (modesty)زیادہ ہوتی ہے۔ کمزور مومن دعا اور ذکر میں زیادہ مشغول ہوتا ہے۔ کمزور مومن اس پوزیشن میں ہوتا ہے کہ اس کے دل سے اپنے عجز کی بنا پر ایسی دعائیں نکلیں جو اللہ کی رحمت کو انووک (invoke) کرنے والی ہوں۔ اس قسم کے اسباب کمزور مومن کی روحانیت میں اضافہ کردیتے ہیں۔ طاقت ور مومن اگر جسمانی اعتبار سے قوی ہوتا ہے تو کمزور مومن اپنی روحانیت کے اعتبارسے قوی بن جاتا ہے۔
طاقت ور مومن کے لیے یہ اندیشہ ہوتا ہے کہ وہ کبھی فخر (pride) میں مبتلا ہوجائے۔ لیکن کمزور مومن اس اعتبار سے محفوظ رہتا ہے۔ وہ اپنے عجز کی بنا پر زیادہ سے زیادہ متواضع (modest) بن جاتا ہے۔ اس طرح کمزور مومن اپنی کمزوری کے باوجود اس بات کا مستحق ہوجاتا ہے کہ اللہ اس کے عجز کی تلافی کے لیے اس کو اپنی خصوصی رحمت عطا فرمائے۔