انسان کی تخلیق

قرآن کی ایک سورہ کا نام التین ہے۔ اس کا ترجمہ یہ ہے: گواہ ہے تین اور زیتون۔ اور طورسینا۔ اور یہ بلد امین۔ ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا۔ پھر اس کو سب سے نیچے پھینک دیا۔ لیکن جو لوگ ایمان لائے اور اچھے کام کیے تو ان کے لیے کبھی نہ ختم ہونے والا اجر ہے۔ تو اب کیا ہے جس سے تم جزاء و سزاکو جھٹلا تے ہو۔ کیا اللہ سب حاکموں سے بڑا حاکم نہیں۔

التین، زیتون، طور سینین اور بلد امین، یہ چاروں علاقے چار پیغمبر وں کے مقامات عمل تھے۔التین کا تعلق حضرت نوح سے ہے، زیتون کا تعلق حضرت مسیح سے، طور کا تعلق حضرت موسی سے، اور بلد امین (مکہ) کا تعلق پیغمبر اسلام سے۔ ان پیغمبروں نے انسان کو بتایا کہ اللہ رب العالمین کا نقشۂ تخلیق کیا ہے۔ اور اس کے مطابق اللہ انسان سے کیا معاملہ کرنے والا ہے۔ خالق نے انسان کو احسن تقویم (best form) میں پیدا کیا۔ پھر اس کو اسفل سافلین (کمترین حالت) میں ڈال دیا۔ اس سے مراد یہ ہے کہ انسان کو اس کی تخلیق کے مطابق جو ہیبیٹاٹ (habitat) مطلوب ہے، اس دنیا میں وہ ہیبیٹاٹ انسان کو نہیں دیا گیا، بلکہ ایک ایسی دنیا میں اس کو بسایا گیا جو انسان کے لیے مطلوب ہیبیٹاٹ نہیں تھا۔ موجودہ دنیا انسان کو عام تقسیم کے اصول پر کسی استحقاق کے بغیر ملی ہے۔ مگر ہیبیٹاٹ صرف اس انسان کو ملے گا، جو موجودہ دنیا میں اپنے کردار سے اس کا استحقاق ثابت کرے۔

اس فرق کی بنا پر موجودہ دنیا میں انسان کا یہ حال ہے کہ وہ ہمیشہ غیر مطمئن رہتا ہے۔ کوئی بھی چیز اس کو سکون نہیں دیتی۔ کیوں کہ جس چیز سےاس کو سکون مل سکتا ہے، وہ اس کا ہیبیٹاٹ ہے، جو کہ موجودہ دنیا میں اس کو دیا ہی نہیں گیا۔ یہی موجودہ دنیا میں انسان کا اصل مسئلہ ہے۔ اس کی ایک مادی مثال مچھلی ہے۔ مچھلی کی ساخت دوسرے حیوانات سے مختلف ہوتی ہے۔ تمام حیوانات کی زندگی کے لیے آکسیجن ضروری ہے، تمام حیوانات ہوا سے آکسیجن حاصل کرتے ہیں۔ لیکن مچھلی کی ساخت مختلف ہے۔مچھلی صرف پانی میں تحلیل شدہ آکسیجن (dissolved oxygen) سے آکسیجن حاصل کرسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مچھلی پانی کے باہر تڑپتی رہتی ہے، وہاں ہوا موجود ہوتی ہے، لیکن وہاں اس کے لیے تحلیل شدہ آکسیجن موجود نہیں ہوتا۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ پانی مچھلی کا ہیبیٹاٹ ہے۔ مچھلی اپنے ہیبیٹاٹ میں سکون کے ساتھ رہتی ہے۔ لیکن ہیبیٹاٹ کے باہر وہ بے چین ہوجاتی ہے۔ انسان کی یہی وہ حالت ہے جس کو ثُمَّ رَدَدْنَاہُ أَسْفَلَ سَافِلِینَ کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ انسان کا ہیبیٹاٹ جنت ہے۔ موجودہ دنیا میں انسان کو جنت حاصل نہیں رہتی، اس لیے یہاں وہ بے چین رہتا ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی اس حالت پر غور کرے۔ وہ غور و فکر کے ذریعہ اپنے ہیبیٹاٹ (جنت) کو دریافت کرے۔ اور پھر جنت کے مطابق عمل کرکے عالم آخرت میں اپنے ہیبیٹاٹ (جنت) کو پائے، اور وہاں ابدی خوشی کی زندگی گزارے۔

إِلَّا الَّذِینَ آمَنُوا سے مراد یہی ہے۔ یہاں ایمان سے مراد یہ ہے کہ آدمی پیغمبر کی رہنمائی پر تدبر کرے۔ وہ پیغمبر کی رہنمائی کے ذریعہ اللہ کے تخلیقی نقشہ کو جانے۔ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کو چاہیے کہ وہ ایمانی دریافت کے مطابق اپنی زندگی کا درست نقشہ بنائے، وہ اپنی عملی زندگی کو ایمانی دریافت کے مطابق تعمیرکرے۔الیس اللہ باحکم الحاکمین کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی شان کے خلاف ہے کہ وہ انسان کو احسن تقویم کے ساتھ پیدا کرے، اور پھر اس کو ابدی طور پر اسفل سافلین میں ڈال دے۔ تخلیق کے اندر پائی جانے والی اعلیٰ درجے کی معنویت انسان کے لیے اس انجام کی تردید کرتی ہے۔ اس پہلو پر غور کرکے انسان یہ دریافت کرتا ہے کہ انسان کے لیے پیدائشی طور پر یہ مقدر ہے کہ اس کو اس کا مطلوب ہیبیٹاٹ ملے۔ لیکن یہ مطلوب ہیبیٹاٹ عمل صالح کی شرط کے ساتھ مشروط ہے۔ انسان کو اس کی تخلیق تو اپنے آپ مل گئی۔ لیکن انسان کو اس کا مطلوب ہیبیٹاٹ اپنے آپ ملنے والا نہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ آدمی ایمان اور عمل صالح کی شرط کو پورا کرکے یہ ثابت کرے کہ وہ واقعۃً اس انعام کا اہل ہے۔ انسان کو اس کا وجود تخلیق کے ذریعہ اپنے آپ مل گیا، لیکن انسان کو اس کا ہیبیٹاٹ (جنت) اپنے آپ نہیں ملے گی، بلکہ جنت اس کو اس وقت ملے گی، جب کہ دنیا کی زندگی میں اپنے عمل سے وہ اپنے آپ کو جنت کا اہل ثابت کردے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom