اللہ کے محبوب بندے
پیغمبروں کی تاریخ کے بارے میں قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے:وَکَأَیِّنْ مِنْ نَبِیٍّ قَاتَلَ مَعَہُ رِبِّیُّونَ کَثِیرٌ فَمَا وَہَنُوا لِمَا أَصَابَہُمْ فِی سَبِیلِ اللَّہِ وَمَا ضَعُفُوا وَمَا اسْتَکَانُوا وَاللَّہُ یُحِبُّ الصَّابِرِینَ (3:146)۔ یعنی اور بہت سے نبی گزرے ہیں جن کے ساتھ مل کر بہت سے اللہ والوں نے قتال کیا، پھر جو مصیبتیں ان کو اللہ کی راہ میں پہنچیں ان کی وجہ سے نہ ہمت ہارے نہ کمزور پڑے، اور نہ عاجز ہوئے اور اللہ صبر کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
اس آیت میں قتال اپنے لفظی معنی میں نہیں ہے، بلکہ اپنے استعمالی معنی میں ہے۔ اس سے مراد وہی چیز ہے جس کو پر امن جہاد (peaceful struggle) کہا جاتا ہے۔ قرآن سےیہ ثابت نہیں کہ دوسرے نبیوں نے قتال کیا۔ اس لیے یہاں قتال کو اس کے لفظی معنی میں لینا درست نہ ہوگا۔ بلکہ اس سے مراد پیغمبرانہ مشن کی راہ میں مجاہدہ کبیر ہے۔
آیت میں تین الفاظ آئے ہیں: وہن، ضعف، اور استکانت۔ یہ تینوں الفاظ قریب المعنی ہیں۔ تینوں الفاظ کا خلاصہ ایک ہے۔ یعنی دینی مشن کی راہ میں مشکلات کے باوجود اپنا حوصلہ باقی رکھنا۔ یہاں تین لفظ تاکید کے لیے آئے ہیں۔ جیسا کہ علم المعانی کا اصول ہےکہ ایک معنی پر دلالت کرنے والے مختلف الفاظ کا ذکرمبالغہ و تاکید(تاکیداً و مبالغۃً) کے لیےہوتا ہے۔ (دیکھیے: المزھر فی علوم اللغۃ للسیوطی، 1/318)
قرآن کی مذکورہ آیت میں وہن، ضعف، استکانت بظاہر تین الفاظ ہیں۔ مگر تینوں قریب المعنی ہیں، اور یہاں الفاظ کی یہ تکرار برائے تاکید ہے۔ یعنی وہ اہل ایمان اللہ کو محبوب ہوتے ہیں جو دینی مشن کا کام اس طرح انجام دیں کہ ہر حال میں وہ استقامت پر قائم رہیں۔ کوئی بھی ناخوشگوار واقعہ ان کے ارادے میں تزلزل پیدا نہ کرے۔ کوئی بھی پیش آنے والا واقعہ ان کے حوصلہ میں کمی کرنے والا ثابت نہ ہو۔