غلطی کو سنبھالنا
ایک مرتبہ میں ٹیکسی پر سفر کررہا تھا۔ میں نے ٹیکسی ڈرائیور سے پوچھا کہ آپ کتنے سال سے ٹیکسی چلا رہے ہیں۔ اس نے کہا کہ تقریباً بیس سال سے۔ میں نے پوچھا کہ اس مدت میں، کیا آپ کی ٹیکسی کے ساتھ کوئی ایکسیڈنٹ ہوا ہے۔ اس نے کہا کہ نہیں۔ میں نے دوبارہ پوچھا کہ ایکسیڈنٹ نہ ہونے کا راز کیا ہے۔ اس نے کہا— دوسرے کی غلطی کو سنبھالنا۔ اس نے مزید کہا کہ جب میں روڈ پر چل رہا ہوں، اور میں دیکھتا ہوں کہ دوسرا ڈرائیور غلطی کررہا ہے تو میں ایسا نہیں کرتا کہ ہارن بجانا شروع کردوں۔ بلکہ میں یہ سوچتا ہوں کہ اس کی غلطی کو میں کس طرح سنبھالوں۔ میرا طریقہ یہ نہیں ہے کہ میں ہارن بجا کر دوسرے کی غلطی کا اعلان کروں، بلکہ میرا طریقہ یہ ہے کہ اپنی عقل کو استعمال کرکے یہ جانوں کہ اس غلطی کے انجام سے بچنے کی تدبیر کیا ہے۔
یہ صرف ٹیکسی ڈرائیور کی بات نہیں، بلکہ وہ زندگی کا ایک کامیاب اصول ہے۔ لوگ عام طور پر کام یہ سمجھتے ہیں کہ وہ دوسرے کی غلطی بتاتے رہیں۔ وہ دوسرے کی غلطی کو لے کر اس کے خلاف پروٹسٹ کرنا شروع کردیں۔ مگر یہ کوئی کام نہیں، بلکہ وہ صرف رد عمل (reaction) ہے۔ اس دنیا میں مثبت عمل سے کام بنتا ہے، نہ کہ رد عمل سے۔
ردّ عمل کا طریقہ یہ بتاتا ہے کہ آدمی کے پاس صحیح سوچ (right thinking) نہیں ہے۔ وہ صرف یہ جانتا ہے کہ جس کو وہ بطور خود غلط کرتا ہوا پائے، اس کے خلاف وہ احتجاج کرنا شروع کردے۔ ایسے انسان کا ہاتھ صرف ہارن پر ہوتا ہے۔ دوسرا انسان وہ ہے جو ہمیشہ اپنی عقل کو بیدار رکھتا ہے۔ وہ اپنے ذہن کی قوت کو استعمال کرکے دریافت کرتا ہے کہ اصل معاملہ کیا ہے، اور کسی مزید بگاڑ کے بغیر اس کو کیسے حل کیا جاسکتا ہے۔ احتجاج (protest) ہر آدمی کرسکتا ہے، لیکن دانش مند آدمی وہ ہے جو مثبت سوچ کے تحت صورتِ حال کا جائزہ لے، اور پیدا شدہ مسئلے کا حقیقی حل دریافت کرے۔ غلطی کو درست کرنا اصل کام ہے، نہ کہ غلطی کے خلاف شور کرنا۔