جنت انسان کا ہیبیٹاٹ

قرآن کی سورہ التین آیات 4-5 میں یہ بتایا گیا ہے کہ خدا نے انسان کو احسن تقویم کی صورت میں پیدا کیا۔ پھر اس کو اسفل سافلین میں ڈال دیا۔ اسفل سافلین کا لفظی مطلب ہےسب سے نیچے (lowest of the low)۔ یہ بات کسی پر اسرار معنی میں نہیں ہے۔ اس سے مراد وہی واقعہ ہے، جو عملاً انسان کے ساتھ پیش آیا ہے۔ یعنی خالق نے انسان کو پیدا کیا، اور اس کے بعد اس کو موجودہ زمین (planet earth) پر بسا دیا۔

مگر انسان کی تاریخ بتاتی ہے کہ انسان کے لیے یہ زمین ہمیشہ مصیبت کی دنیا (البقرۃ:156) ثابت ہوئی۔ اس دنیا میں کوئی بھی شخص خواہ وہ صاحب سامان ہو یا بے سرو سامان اس کو کبھی خوشی کی زندگی حاصل نہیں ہوتی۔ ہر عورت اور ہرمرد اس دنیا میں عملاً ماہی بے آب کی زندگی گزارتے ہیں اور اسی حال میں مرجاتے ہیں۔

اس کا سبب کیا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اس دنیا میں تمام مخلوقات کو ان کا ھیبیٹاٹ (habitat) ملا ہوا ہے۔ لیکن انسان کو اس کا ہیبیٹاٹ حاصل نہیں۔ گویا کہ انسان اُس مچھلی کی مانند ہے جس کے لیے یہ مقدر ہو کہ وہ پانی کے باہر پیدا ہوگی، اور پانی کے بغیر تڑپتے تڑپتے مرجائے۔ مگر خالق کی جو صفات کمال اس دنیا میں ظاہر ہوئی ہیں، اس کے لحاظ سے یہ بات ناقابل قیاس ہے کہ انسان کی زندگی اس قسم کے المناک انجام پر ختم ہوجائے۔

اب ایک اور پہلو سے دیکھیے۔ ہمارے گرد و پیش جو کائنات ہے، وہ بہت ہی وسیع کائنات ہے۔ اس وسیع کائنات کے بارے میں قرآن کا ایک بیان یہ ہے:بڑا بابرکت ہے وہ جس کے ہاتھ میں بادشاہی ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ وہ تم کو جانچے کہ تم میں سے کون اچھا کام کرتا ہے۔ اور وہ زبردست ہے،بخشنے والا ہے۔جس نے بنائے سات آسمان اوپر تلے، تم رحمٰن کے بنانے میں کوئی خلل نہیں دیکھو گے،پھر نگاہ ڈال کر دیکھ لو، کہیں تم کو کوئی فطور (flaw) نظر آتا ہے۔پھر بار بار نگاہ ڈال کر دیکھو، نگاہ ناکام تھک کر تمھاری طرف واپس آجائے گی۔(67:1-4)۔

قرآن کی یہ آیت بتاتی ہے کہ وسیع کائنات میں کسی بھی قسم کا فطور نہیں۔ فطور کا مطلب ہے نقص (flaw)۔ مگر خود قرآن کے بیان کے مطابق، اس بے نقص کائنات (flawless universe)میں ایک اسپاٹ ایسا ہے جہاں نقص کی حالت موجود ہے۔ اور وہ یہ کہ انسان کو اس کا فطری ہیبیٹاٹ حاصل نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس دنیا میں کسی انسان کو کبھی فل فلمینٹ (fulfilment) نہیں ملتا۔ بے خطا کائنات میں اس قسم کا تضاد پایا جانا ممکن نہیں۔ ضروری ہے کہ اس سوال کا کوئی بامعنی جواب قرآن میں موجودہو۔

غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین کی تمام مخلوقات میں انسان ایک استثناء (exception)ہے۔اس بنا پر خالق نے انسان کے ساتھ ایک استثنائی معاملہ کیا ہے۔ وہ یہ کہ انسان کی زندگی کو دو دور میں تقسیم کردیا گیا۔ ایک، قبل از موت دور اور دوسرا،بعد از موت دور۔ قبل از موت دور انسان کے لیے تیاری کا دور (preparatory period) ہے۔ اس کےمقابلے میں دوسرا دور بعد از موت دور ہے۔ قبل از موت دور عارضی ہے۔ اس کے مقابلے میں بعد از موت دور ابدی دور ہے۔ یہ ابدی دور انسان کے لیے اس کا مطلوب ہیبیٹاٹ ہوگا۔

اس ہیبیٹاٹ میں انسان کے لیے وہ سب کچھ ہوگا جو وہ چاہے(فصلت:31)۔ یہ چاہنا انسان کی خواہش (desire) کے اعتبار سے بھی ہوگا اور انسان کے فکری تقاضے (intellectual requirement) کے اعتبار سے بھی۔یہاں انسان کی تمام خواہشیں پوری ہوں گی۔ مزید یہ کہ یہاں انسان کو اس کی فکری سرگرمیوں کے لیے لامحدود مواقع حاصل ہوں گے۔ اس حقیقت کی طرف اشارہ قرآن کی ان آیات میں کیا گیا ہے جن میں بتایا گیا ہے کہ اللہ کے کلمات کبھی ختم نہ ہوں گے، خواہ اس کو لکھنے کے لیے تمام پیڑوں کو قلم بنادیا جائے، اور اس کو لکھنے کے لیے موجودہ سمندروں سے بھی زیادہ سمندروں کی سیاہی بنا دی جائے(الکہف: 109،لقمان: 27)۔

اس ابدی جنت یا دوسرے الفاظ میں اس ہیبیٹاٹ میں جگہ پانے کے لیے قرآن میں جو شرط بتائی گئی ہے، وہ یہ ہے کہ انسان موجودہ امتحان کی دنیا سے گزرتے ہوئے، اپنے آپ کو احسن العمل (الملک:2) ثابت کرے۔ موجودہ دنیا اس انداز سے بنائی گئی ہے کہ یہاں آدمی کو ہر قسم کے تجربات پیش آتے ہیں۔ دنیا کے اس پہلو کا ذکر قرآن کی ایک آیت میں اس طرح آیا ہے: اور ہم ضرور تم کو آزمائیں گے کچھ ڈر اور بھوک سے اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے۔ اور ثابت قدم رہنے والوں کو خوش خبری دے دو۔جن کا حال یہ ہے کہ جب ان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ کہتے ہیں ہم اﷲ کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن کے اوپر ان کے رب کی شاباشیاں ہیں اور رحمت ہے۔ اور یہی لوگ ہیں جو راہ پر ہیں۔ (2:155-157)۔

انسان کے ساتھ موجودہ دنیا میں جو ناخوش گوار واقعات پیش آتے ہیں، وہ اس کی تربیت کے لیے ہوتے ہیں۔ یہ واقعات اس لیے ہیں تاکہ انسان ہر صورتِ حال کا مثبت رسپانس (positive response) دے۔ اور اس طرح اپنے آپ کو ابدی جنت میں داخلے کے لیے اس کا اہل (competent) ثابت کرے۔ اہلیت کے اسی معاملے کو قرآن میں ایمان اور عمل صالح (التین6:) کہا گیا ہے۔

تاہم اللہ رب العالمین کی ایک صفت یہ ہے کہ وہ اپنے بندوں کے حق میں ارحم الراحمین ہے۔ اس معاملے کو ایک حدیث قدسی میں ان الفاظ میں بتایا گیا ہے کہ غلبت رحمتی علی غضبی (صحیح البخاری، حدیث نمبر3194)۔ یعنی میری رحمت میرے غضب کے اوپر غالب ہے۔

اللہ کی رحمت کی مختلف صورتیں ہیں۔ اس کی ایک صورت یہ ہے کہ اللہ کے یہاں سائل کو بھی حقدار کا درجہ دیا گیا ہے(الذاریات:19، المعارج:25)۔ اور ظاہر ہے کہ جب اللہ نے انسان کے لیے اس قسم کا اصول مقرر کیا ہے کہ سوال کرنے والے کے ساتھ بھی حقدار جیسا معاملہ کرو تو یقینی ہے کہ خود اللہ کی سنت بھی یہی ہوگی کہ اس کے یہاں کوئی سائل محروم نہ رہے۔ بشرطیکہ وہ حقیقی معنی میں سائل ہو۔

اس معاملے کی ایک عملی مثال قرآن میں تقسیم وراثت کی آیت میں اس طرح ملتی ہے:وَإِذَا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُو الْقُرْبَى وَالْیَتَامَى وَالْمَسَاکِینُ فَارْزُقُوہُمْ مِنْہُ وَقُولُوا لَہُمْ قَوْلًا مَعْرُوفًا (4:8)۔ یعنی اور اگر تقسیم کے وقت رشتہ دار اور یتیم اور محتاج آجائیں تو اس میں سے ان کو بھی کچھ دو اور ان سے ہمدردی کی بات کہو۔

اللہ کا کوئی بندہ قرآن کی اس آیت کو پڑھے، اور روتے ہوئے اللہ سے یہ کہے کہ خدایا، تونے انسانو ں کو یہ حکم دیا ہے کہ تقسیم وراثت کے وقت کوئی غیر مستحق اگر وہاں آجائے تو اس کو محروم نہ کرو، بلکہ اس کو بھی ایک حصہ ادا کرو۔ خدایا، بندوں کے لیے جب تونے یہ اصول مقرر فرمایا ہے تو اس معاملے میں بے شمار گنا اعلی درجے میں تو اس صفت کا حامل ہوگا۔ میں اپنے عمل کے اعتبار سے ایک غیر مستحق انسان ہوں، لیکن سوال کے اعتبار سے میں اپنے آپ کو جنت کا سوال کرنے والوں کی لائن میں کھڑا کررہاہوں۔ تو مجھ کو جنت سے محروم نہ فرما۔ اگر کوئی اللہ کا بندہ سچے دل کے ساتھ اس قسم کی دعا کرے تو یقینی ہے کہ اللہ کی رحمت سے اس کی دعا قبولیت کا درجہ پائے گی۔

قرآن میں جنت کا ذکر کرتے ہوئے یہ الفاظ آئے ہیں:وَسَارِعُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّکُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُہَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِینَ (3:133)۔ یعنی دوڑو اپنے رب کی بخشش کی طرف اور اس جنت کی طرف جس کی چوڑائی آسمان اور زمین ہیں۔ وہ تیار کی گئی ہے اللہ سے ڈرنے والوں کے لئے۔ قرآن کی اس آیت سے اندازہ ہوتا ہے کہ جنتی انسانوں کے لیے ان کا جو ابدی ھیبیٹاٹ بنے گا، اس کے امکانات کتنے زیادہ ہوں گے۔ وہ گویا اپنے آپ میں پوری کائنا ت ہوگا۔ اہل جنت کی اس دنیا کے بارے میں قرآن میں یہ الفاظ آئے ہیں:إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ کَانَتْ لَہُمْ جَنَّاتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلًا۔ خَالِدِینَ فِیہَا لَا یَبْغُونَ عَنْہَا حِوَلًا۔ قُلْ لَوْ کَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِکَلِمَاتِ رَبِّی لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَنْ تَنْفَدَ کَلِمَاتُ رَبِّی وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِہِ مَدَدًا (18:107-109)۔ یعنی بیشک جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک عمل کیا، ان کے لئے فردوس کے باغوں کی مہمانی ہے۔ اس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ وہ وہاں سے کبھی نکلنا نہ چاہیں گے۔ کہو کہ اگر سمندر میرے رب کی نشانیوں کو لکھنے کے لئے روشنائی ہوجائے تو سمندر ختم ہوجائے گا اس سے پہلے کہ میرے رب کی باتیں ختم ہوں، اگرچہ ہم اس کے ساتھ اسی کے مانند اور سمندر ملا دیں۔

جنت میں ایک طرف اہل جنت کی تمام مادی خواہشوں کی تکمیل کا سامان ہوگا۔ جیسا کہ قرآن میں آیا ہے: وَلَکُمْ فِیہَا مَا تَشْتَہِی أَنْفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِیہَا مَا تَدَّعُونَ (41:31) یعنی اور تمہارے لیے وہاں ہر چیز ہے جس کا تمہارا دل چاہے اور تمہارے لیے اس میں ہر وہ چیز ہے جو تم طلب کرو گے۔ موجودہ دنیا میں انسان کو جومادی نعمتیں ملی ہیں، وہ آخرت میں مزیداضافہ کے ساتھ انتہائی اعلیٰ صورت میں حاصل ہوں گی۔

مزید یہ کہ انسان کی ذہنی اور فکری سرگرمیوں کے لیے وہاں ایک ایسی وسیع دنیا ہوگی جس کی حدیں کبھی ختم نہ ہوں۔ اہل جنت کے لیےوہاں یہ موقع ہوگا کہ وہ اپنی فکری سرگرمیوں (intellectual activities) کو انتہائی تخلیقی انداز میں ابدی طور پر جاری رکھے۔

 

موجودہ دنیا امتحان کے لیے بنائی گئی ہے۔ یہاں ہمیشہ ہر ایک کے لیے ناموافق حالات موجود رہیں گے، تاکہ امتحان کے تقاضے کو پورا کیا جاسکے۔ خدائی تخلیق کے مطابق، معیاری دنیا موت کے بعد صرف جنت میں بنے گی۔ موجودہ دنیا میں انسان کا کام یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس قابل بنائے کہ اس کو اگلے دورِ حیات میں بننے والی معیاری دنیا (جنت)میں داخلہ مل سکے۔ موجودہ دنیا میں معیاری سماجی نظام بنانے کی کوشش کرنا گویا جنت کو موجودہ دنیا ہی میں تعمیر کرنا ہے جو خدائی نقشہ کے مطابق، سرے سے ممکن ہی نہیں۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom