اعلیٰ معرفت

معرفت الٰہی کا اعلی درجہ وہ ہے جو مبنی بر حکمت معرفت (wisdom-based realization) ہو۔ یہ معرفت کی وہ قسم ہے جو ان لوگوں کو حاصل ہوتی ہے، جنھوں نے اپنے آپ کو اعلی درجے کے ذہنی ارتقا (intellectual development) پر پہنچایا ہو۔ عبد اللہ ابن رواحۃ (وفات8:ھ) اسی قسم کے ایک صحابی تھے۔ ان کے بارے میں ایک روایت حدیث کی کتابوں میں ان الفاظ میں آئی ہے:عن أنس بن مالک، قال:کان عبد اللہ بن رواحة إذا لقی الرجل من أصحابہ، یقول:تعال نؤمن بربنا ساعة، فقال ذات یوم لرجل، فغضب الرجل، فجاء إلى النبی صلى اللہ علیہ وسلم، فقال: یا رسول اللہ، ألا ترى إلى ابن رواحة یرغّب عن إیمانک إلى إیمان ساعة؟ فقال النبی صلى اللہ علیہ وسلم: یرحم اللہ ابن رواحة، إنہ یحب المجالس التی تتباہى بہا الملائکة (مسند احمد، حدیث نمبر13796)۔ انس بن مالک سے روایت ہے کہ عبداللہ بن رواحہ ایسا کرتے تھے کہ جب وہ کسی صحابی سے ملتے تو وہ اس سے کہتے کہ آؤ، تھوڑی دیر اپنے رب پر ایمان لے آئیں، ایک دن انہوں نے یہی بات ایک آدمی سے کہی تو وہ غصہ ہوگیا اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آکر اس نے کہاکہ یا رسول اللہ، کیا آپ ابن رواحہ کو نہیں دیکھتےکہ وہ لوگوں کو آپ پر ایمان لانے کے بجائے تھوڑی دیر کے لئے ایمان کی طرف بلاتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ ابن رواحہ پر رحم کرے، وہ ان مجلسوں کو پسند کرتے ہیں جن پر فرشتے رشک کرتے ہیں۔

یہ مبنی بر حکمت معرفت کی ایک مثال ہے۔ معلوم ریکارڈ کے مطابق بعد کے زمانے میں غالباًاس قسم کی معرفت کا تصور باقی نہ رہا۔اس کے بجائے ایک اور تصور رائج ہوگیاجس کو مبنی بر قلب تصور کہا جاسکتا ہے۔ اس دوسرے قسم کے معرفت کی ایک مثال محی الدین ابن عربی (وفات 638ھـ ) کی ہے۔ اس موضوع پر ان کا ایک شعر یہ ہے: العبد عبد وان ترقى والرب رب وان تنزل۔ بندہ بندہ ہے، اگرچہ وہ اوپر چڑھے۔ اور رب رب ہے، اگرچہ وہ نیچے اترے۔

اس قسم کی ایک اور مثال ابن قیم الجوزیة (وفات 751: ھـ)کی ہے۔ انھوں نے اپنی ایک کتاب میں لکھا ہے: وَقَالَ تَعَالَى {لَیْسَ کمثلہ شَیْء} فَہَذَا من الْمثل الْأَعْلَى وہو مستو على قلب الْمُؤمن فہو عرْشہ (الفوائد، بیروت، 1973، صفحہ 27)۔ اللہ نے فرمایا: اس کے مانند کوئی چیز نہیں (الشوری: 11)۔ اس لیے یہ ایک اعلی مثال کا معاملہ ہے۔ اور وہ مستوی ہے مومن کے قلب پر، پس مومن کا قلب اللہ کا عرش ہے۔

موجودہ زمانے میں سائنسی دریافتوں نے مبنی بر حکمت معرفت کے دائرے کو بہت زیادہ وسیع کردیا ہے۔ موجودہ زمانے میں سائنس نے جس نیچرل ورلڈ (natural world) کو دریافت کیا ہے، وہ پورا کا پورا گویا مبنی بر حکمت معرفت کی تفسیر ہے۔ ان دریافتوں نے موجودہ زمانے میں انسان کو یہ موقع دیا ہے کہ وہ زیادہ بڑے پیمانے پر اعلی معرفت والا ایمان حاصل کرے۔

موجودہ زمانے میں سائنس کا ایک نیا موضوع (subject) وجود میں آیا ہے۔ اس کو انٹلجنٹ یونیورس (intelligent universe) کہا جاتا ہے۔ انٹلجنٹ یونیورس کے بارے میں سائنس کی نئی دریافتوں نے ساری کائنات کو معرفت اعلی کی کائنات بنا دیا ہے۔ اس موضوع پر موجودہ زمانے میں اہل علم نے کافی لکھا ہے۔ بطور مثال چند کتابیں یہ ہیں:

The Intelligent Universe, by Fred Hoyel (1984)

The Intelligent Universe: A Cybernetic Philosophy, by David Blythe Foster (1975)

The Intelligent Universe by James N. Gardner (2007)

Intelligent Universe: The Light-Second Code and the Golden Ratio, by Hristo Smolenov (2016)

اس موضوع پر کثیر تعداد میں مقالات اور کتابیں موجودہ زمانے میں شائع ہوئی ہیں۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ ان تمام کتابوں اور مقالات کا موضوع بلااعلان رب العالمین کی معرفت ہے۔ ایک عربی ٹائٹل کے مطابق ان کو اللہ یتجلی فی عصر العلم کہا جاسکتا ہے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom