چلو یہ بھی ٹھیک ہے
امریکا کے سفر میں ایک بار مجھے چند دن کے لیے ایک صاحب کے یہاں ٹھہرنے کا موقع ملا۔ یہ مسٹر صغیر اسلم ہیں جو کیلیفورنیا میں رہتے ہیں۔میں نے دیکھا کہ مسٹر صغیر اسلم عام لوگوں کے برعکس ہمیشہ ٹنشن سے خالی (tension-free) رہتے ہیں۔ اس کا راز ان کا ایک سمپل فارمولا تھا۔ جب بھی ان سے کوئی اختلاف کی بات کرتا تو وہ فوراً وہ کہہ دیتے کہ چلو یہ بھی ٹھیک ہے۔ خود مجھ کو بھی اس کا تجربہ ہوا۔ ایک دن میں نے مسٹر صغیر اسلم سے کہا کہ کل صبح سائٹ سی اِنگ (sight seeing) کے لیے چلیں گے۔ انھوں نے اتفاق کیا۔
اگلی صبح کو وہ تیار ہوکر میرے کمرے میں آگیے، اور چلنے کے لیے کہا۔ میں نے جواب دیا کہ اِس وقت میرا کہیں جانے کا موڈ نہیں ہے، پھر دیکھیں گے۔ اس کے بعد انھوں نے کچھ بھی نہیں کہا، معتدل انداز میں صرف یہ جواب دیا: چلو یہ بھی ٹھیک ہے۔حالاں کہ مسٹر صغیر اسلم ایک مصروف آدمی ہیں، اور اپنے کئی پروگرام کو موقوف کرکے انھوں نے میرے ساتھ چلنے کا وقت نکالا تھا۔
اجتماعی زندگی کے لیے یہ بہترین قابل عمل فارمولا ہے۔ گھر کے اندر کی زندگی ہو یا گھر کے باہر کی زندگی، ہر جگہ لوگوں کے درمیان بار بار اختلافی مسائل پیش آتے ہیں۔ ایسے موقعے پر حالات کو دوبارہ معتدل کرنے کے لیے سب سے اچھا عملی فارمولا یہ ہے کہ آپ فریق ثانی سے ٹکراؤ نہ کریں۔ بحث کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش نہ کریں کہ صحیح کیا ہے، اور غلط کیا۔ بلکہ فوراً یہ کہہ دیں: چلو یہ بھی ٹھیک ہے۔اجتماعی زندگی میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ یہ ثابت کرنا ممکن نہیں ہوتا کہ کیا درست ہے، اور کیا نادرست۔ ایسی حالت میں پہلی ضرورت یہ ہوتی ہے کہ وقت کو بچایا جائے۔ غیر مفید بحث میں وقت ضائع کرنے کے بجائے یہ کہہ کر بات کو ختم کردیا جائے کہ: چلو یہ بھی ٹھیک ہے۔ایسے موقعے کے لیے یہ بہترین پریکٹکل فارمولا ہے۔ اس فارمولے پر عمل کرنے کی صورت میں وقت بھی بچتا ہے، اور غیر ضروری بحث و مباحثہ کی نوبت نہیں آتی۔