قرآن کی تفسیر
قرآن کی تفسیر میں کثرت سے کتابیں لکھی گئی ہیں۔ عام طریقہ یہ ہے کہ ان مفسرین کو مختلف طبقات میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے طبقے میں صحابہ کی تفسیریں ہیں۔ مثلاً عبداللہ ابن عباس اور عبد اللہ ابن مسعود، وغیرہ۔ دوسرے طبقہ میں تابعین کی تفسیریں ہیں۔ مثلاً عکرمہ اور مجاہد، وغیرہ۔ تیسرے طبقے میں وہ لوگ جنھوں نے صحابہ و تابعین کے اقوال کو جمع کیا، مثلاً عبد الرزاق،اور سفیان بن عیینہ وغیرہ۔ چوتھے طبقہ میں وہ لوگ ہیں جنھوں نے صحابہ و تابعین کے اقوال پر اپنی توجیہہ اور ترجیح اور استنباط کو شامل کیا۔ مثلاً ابن جریر طبری،وغیرہ۔پانچویں طبقہ میں ان لوگوں کو شمار کیا گیا ہے، جو قرآن کی تفسیر میں لغوی فوائد اور وجوہ اعراب کا ذکر کرتے ہیں۔ مثلاً ابو اسحاق الزجاج اور ابو جعفر النحاس،و غیرہ۔ چھٹے طبقہ میں وہ مفسرین آتےہیں جو کسی خاص علم میں شغف رکھتے تھے، اور اسی کے مطابق انھوں نےاپنی تفسیریں لکھی ہیں۔ مثلاً ابو حیان الاندلسی کی تفسیر البحر المحیط، جو نحوی قواعد کے اعتبار سے لکھی گئی ہے،اورابوبکر الجصاص کی احکام القرآن جس میں فقہی اعتبار سے آیات کی تفسیر کی گئی ہے۔ ساتویں طبقہ میں دور جدید کے مفسرین کو شمارکیا جاسکتا ہے۔ مثلاً محمد عبدہ، رشید رضا، اور سید قطب،وغیرہ۔
مفسرین کے طبقات کی یہ تقسیم عملا ًدرست ہے، لیکن وہ بعد کے زمانے میں قائم کی گئی ہے۔ جہاں تک قرآن کا تعلق ہے، اس میں صراحت کے ساتھ صرف ایک ہی طبقہ کا ذکر کیا گیا ہے، اور وہ قرآن میں تدبر اور تفکر کرنے والے لوگ ہیں۔ قرآن کے الفاظ یہ ہیں: کِتَابٌ أَنْزَلْنَاہُ إِلَیْکَ مُبَارَکٌ لِیَدَّبَّرُوا آیَاتِہِ وَلِیَتَذَکَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ (38:29)۔ تاہم ظاہر ہے کہ یہ تدبر آزادانہ تدبر نہیں ہوگا، بلکہ وہ اس معاملے میں تمام معتبر مآخذ اور معتبر شخصیتوں کو شامل کرکے کیا جائے گا۔ مطالعہ قرآن کا مقصد صرف فنی تقاضے کو پورا کرنا نہیں ہے، بلکہ یہ ہے کہ وہ قاری کے اپنے ذہن کا جزء بن جائے۔ یہی وہ حقیقت ہے جو قرآن کی اس آیت میں بیان کی گئی ہے:بَلْ ہُوَ آیَاتٌ بَیِّنَاتٌ فِی صُدُورِ الَّذِینَ أُوتُوا الْعِلْمَ (29:49)۔