تزکیہ کیا ہے
تزکیہ کا مقصد کیا ہے۔ اگر یہ سوال کیا جائے تو الفاظ کے فرق کے ساتھ تقریباً سب کا جواب ایک ہوگا۔ یعنی روح کو پاک کر کے اس کو اس قابل بنانا کہ وہ خدا کی قربت حاصل کر سکے۔ اس کے بعد اگر یہ سوال کیا جائے کہ تزکیہ کے مقصد کو حاصل کرنے کی تدبیر کیا ہے۔ تو بیشتر لوگ یہ جواب دیں گے کہ اس کی تدبیر ہے کسی شیخ (ولی) کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دینا۔ مگر پہلا جواب جتنا صحیح ہے، دوسرا جواب اتناہی غلط ہے۔
تزکیہ بلا شبہ ایک قرآنی مطلوب ہے۔ جبکہ تزکیہ ہی پر آخرت کی کامیابی کا انحصار ہے،ذلك جَزاء من تز کی۔(طہ :76)مگر تزکیہ کے عمل کا شیخ یا ولی سے کوئی تعلق نہیں۔ کوئی شیخ یا ولی کسی آدمی کا تزکیہ نہیں کر سکتا۔ تزکیہ صرف اپنی ذاتی محنت اور اللہ کی توفیق سے ہوتا ہے۔ کسی اور کا اس میں کوئی دخل نہیں، اور نہ کوئی شخص تصرف کے ذریعے کسی کو تزکیہ کے مقام پر پہنچا سکتا ہے۔
تزکیہ کا ذریعہ حقیقۃ ً یہ ہے کہ روح کو خوراک پہنچائی جائے۔ جسم کی ایک خوراک ہے۔ یہ خوراک جسم کو پہنچائی جائے تو جسم صحت مند ہو جائے گا۔ اسی طرح روح کی ایک خوراک ہے۔ یہ خوراک جب روح کوپہنچائی جاتی ہے تو روح صحت مندی کا درجہ حاصل کر لیتی ہے جس کو مصفّی اور مزکّی کہا جاتا ہے۔
روح کی یہ خوراک تفکیر (آلِ عمران: ۱۹۱) ہے۔ آدمی کے گرد و پیش ہر وقت کچھ واقعات پیش آرہے ہیں۔ سماجی، تاریخی، کائناتی، ہر سطح پر ہر آن ان کا ظہور ہوتا رہتا ہے۔ ان واقعات سے عبرت اور نصیحت لینا یہی روح کی خوراک ہے۔ جو شخص اپنے شعور کو اتنا ترقی دے کہ اس کو گر دو پیش کے واقعات میں خدائی کرشمے دکھائی دیں، جو اس کے لیے خدا کو یاد دلانے کا ذریعہ بن جائیں، تو ایسے شخص نے اپنی روح کے لیے رزق ربانی کا ایک دستر خوان حاصل کر لیا۔ اس کی روح اس دستر خوان سے اپنی صحت مندی کی خوراک لیتی رہے گی، یہاں تک کہ وہ اپنے رب سے جاملے۔
تزکیہ کا اہم ترین ذریعہ یہ ہے کہ اپنے اندر عبرت پذیری کے مزاج کو جگایا جائے۔ عبرت پذیری گویا تزکیہ کی زمین ہے۔ یہی وہ زمین ہے جس پر تزکیہ کی فصل اگتی ہے۔ کسی اور جگہ اس کو اگانا ایسا ہی ہے جیسے پتھر کی چٹان پر ایک ہرا بھرا درخت اگانے کی کوشش کی جائے۔
تزکیہ کا ذریعہ رزقِ رب ہے نہ کہ رزق ِشیخ۔