تجربہ کی زبان سے

  ایک پاکستانی مسلمان اپنے ہندستانی عزیزوں سے ملنے کے لیے  ہندستان آتے رہتے ہیں۔ ان کا ہندستان کا پتہ یہ ہے : آغا غیاث الرحمن انجم، جان سنز کارپٹ مینوفیکچررز، کمرشل اسٹریٹ، بنگلور۔ موصوف کا تفصیلی خط ہمیں موصول ہوا ہے۔ اس میں انھوں نے اپنے تین واقعے درج کیے ہیں۔ ان کے خط کا ابتدائی حصہ خود انہیں کے اپنے الفاظ میں نقل کیا جاتا ہے۔

میرا تعلق پاکستان سے ہے۔ اپنے عزیزوں سے ملنے میں اکثر بنگلور آتا رہتا ہوں۔ اب کے بار انڈ  یا آیا تو الر سالہ کا شمارہ جنوری ۱۹۹۲ء دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ اس میں ایک واقعہ افضل صاحب کا"خون کے بجائے پانی "کے عنوان سے پڑھا تو میرے ذہن میں انڈیا کے تعلق سے تین ذاتی واقعات آگئے۔ جو اختصار کے ساتھ سپر د قلم کر رہا ہوں۔ ان واقعات سے میرا یہ یقین پختہ ہو گیا ہے کہ دل میں اگر تنگی اور نفرت کے بجائے دوسروں کے لیے  محبت اور کشادگی ہو۔ رویے میں سختی کے بجائے نرمی اور زبان پر تلخی کے بجائے مٹھاس ہو تو پوری دنیا امن و آشتی سے مالا مال ہو سکتی ہے۔

 پہلا واقعہ ۱۹۸۲ء میں پیش آیا۔ میں، میری بیوی، بیٹی اور نو عمر بیٹا بذ ریعہ ٹرین دہلی سے بنگلور جارہے تھے۔ جس بوگی میں ہمیں جگہ ملی وہ چھوٹی سی تھی۔ اور اس میں تقریباً پندرہ مسافر اور تھے جن کا تعلق بھارت اور ہندومت کے ساتھ تھا۔ ان میں زیادہ تر نوجوان تھے جو بنگلور کے کسی تعلیمی ادارے میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ اور چھٹیاں گزارنے کے بعد واپس جا رہے تھے۔ ہماری روایتی سادگی اور بے تکلفی کے سبب یہ نو جوان بہت جلد ہم سے گھل مل گئے۔ میری ڈاڑھی اور میرے پریوار کی نمازوں کی پابندی دیکھ کر ہمارے بارے میں ان کا تاثر یہ تھا کہ ہم مذ ہبی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ لہذا ادھر ادھر کی باتوں کے علاوہ دنیا کے موسم و حالات اور علاقائی سیاست سے چلتے چلتے مذہبی معاملات پر بھی ہونے لگی۔ ان میں ایک ہندو نوجوان بات کرنے میں پیش پیش تھا۔ اس کی گفتگو سے معلوم ہو رہا تھا کہ ذہین نو جوان ہے اور اپنے مذہب کے بارے میں وسیع معلومات رکھتا ہے۔ بہت سے سوالات اور جوابات کے بعد مذکورہ نوجوان نے ایک ایسا سوال کیا جس کے جواب پر بوگی کی پوری فضا یکسر بدل گئی۔ ایسا محسوس ہونے لگا جیسے ہم سب مختلف نہیں بلکہ ایک ہی برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور ہمارےیہاں دوری اور دوئی نام کی کوئی شے نہیں ہے۔

 سوال یہ تھا کہ" ہمارے کرشن جی مہاراج کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے ؟ "میں نے جواب دیا کہ میں آپ کو ایک اصول بتاتا ہوں۔ قرآن مجید اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق کسی مسلمان کو نہ حق ہے اور نہ اجازت ہے کہ وہ کسی مذہب کے پیشواؤں اور قائدوں کو برابھلا کہیں۔" بلکہ حکم ہے کہ ہم ہر عقیدے اور دھرم کے پیشواؤں کا اور بزرگوں کا احترام کریں۔ لہٰذا اس قانون کی رو سے ہم اس بات کے پابند ہیں" شری کرشن جی مہاراج اور دیگرمذاہب کے تمام پیشواؤں کا احترام کریں اور ان کی تعظیم کریں۔"

یہ سننا تھا کہ نوجوان نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا :

 " اگر دنیا کے تمام مذہبی لوگ ایسے ہو جائیں جیسے آپ ہیں تو یہ لڑائی جھگڑ ے، قتل و غارت گری اور آئے دن کے فسادات ہمیشہ کے لیے  ختم ہو جائیں۔"

میں نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کہا۔ اگر یہ بات ہے تو آپ سب میرے ساتھ وعدہ کر یں کہ تم اپنی پوری زندگی میں لوگوں کے دلوں سے کدورتیں اور دشمنیاں مٹاؤ گے۔ اور ان کے دلوں میں باہمی صلح و محبت اور افہام و تفہیم کے بیج بوؤگے۔ تمام نوجوانوں نے میرے ساتھ وعدہ کیا۔

 اس طویل سفر کے دوران ساری گفتگو کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلا کہ ہم کو بنگلور کینٹ کے اسٹیشن پر اترنا تھا اور ان کو بنگلور سٹی کے اسٹیشن پر۔ لہٰذا ہماری منزل پہلے آگئی۔ جوں ہی گاڑی اسٹیشن پر رکی تو ان نوجوانوں نے نہ تو کسی قلی کو ہمارے سامان کے قریب آنے دیا۔ اور نہ ہمیں ہمارے سامان کو ہاتھ لگانے دیا۔ بلکہ ہر نوجوان نے آگے بڑھ کر از خود قلیوں کی طرح ہمارا سامان اپنے ہاتھوں اور کندھوں پر اٹھایا۔ اور آن ِواحد میں پورا سامان پلیٹ فارم پر ڈھیر کر دیا۔ اور جب گاڑی چلی تو ایک ایک نوجوان نے ہم کو سلام کیا، معانقہ کیا، ہمارے عزیزوں کے ساتھ ہاتھ ملایا۔ اپنے ہاتھوں کو ہلاتے ہوئے گاڑی پر سوار ہوئے۔ اور اس سفر کی خوش گوار یادیں ہمارے دلوں میں چھوڑ کر جانب ِمنزل روانہ ہوگئے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom