ایک پیغام
ہندستان ٹائمس کے ایڈیٹر مسٹر ایچ کے دوانے ۷، جون ۱۹۹۲ کو وزیر اعظم ہند نرسمہا راؤ کا ایک انٹرویو لیا۔ یہ خصوصی انٹرویو نئی دہلی میں وزیر اعظم کی سرکاری رہائش گاہ (۷ ریس کورس روڈ) پر ریکارڈ کیا گیا۔ وہ ۹۰ منٹ تک جاری رہا۔ یہ انٹرویو ہندستان ٹائمس کے شمارہ ۸ جون ۱۹۹۲ میں نمایاں طور پر شائع ہوا ہے۔
اس انٹرویو میں دوسرے سوالات کے ساتھ کشمیر کا مسئلہ بھی زیر گفتگو آیا۔ مسٹرنرسمہاراؤ نے بی جے پی کے اس مطالبے کو رد کر دیا کہ دستور ہند سے دفعہ ۳۷۰ کو ختم کر دیا جائے۔ اس کے ساتھ انھوں نے کشمیری جنگجوؤں کے مطالبہ ٔآزادی (انڈپنڈنس) کو بھی قبول کرنے سے انکار کیا۔ تاہم مسٹر دوا کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کامل آزادی کے مطالبہ کو رد کرتے ہوئے داخلی خود مختاری(اٹو نومی)کے معاملے میں کسی قدر نرم تھے۔
The Prime Minister's answers to questions about how his Government planned to tackle the Kashmir question were significant. Mr Narasimha Rao favoured the restoration of representative Government in Jammu and Kashmir as soon as the conditions permitted on the ground that too long a spell of President's rule would be counterproductive. He rejected the militants' demand for independence for Kashmir, maintaining that any solution for the question has to be found within the framework of the Indian Constitution. The Prime Minister also rejected the BJP's demand for scrapping Article 370 of the Constitution. After rejecting "Azadi" on the one hand and the repeal of the Article 370, the Prime Minister sounded somewhat flexible about discussing the quantum of autonomy for Kashmir-of course, within the framework of the Indian Constitution. This is what the Prime Minister said:
"Within the Indian Constitution, there are so many views as you can see. Outside the Indian Constitution, that is something which we don't want to look at. When someone calls it Azadi and means that he doesn't want the Indian Constitution to operate, then we have no common ground. If he thinks that within the Indian Constitution an amount of autonomy which meets with their aspirations is possible, then that is what we have to explore. So, it is within that area that all these differing opinions are possible, starting from one extreme opinion that Article 370 itself should be scrapped all the way to another opinion which seeks more powers for the State etc.etc. So, you can see that it is a very wide area and within that wide area whatever we consider feasible and whatever is considered good for the State, that would have to be determined. And that can be only after the long, thorough and deep examination."-The Hindustan Times, June 8, 1992
وزیر اعظم نے کہا کہ دستور ہند کے باہر تو اس مسئلے پر کوئی گفتگو نہیں کی جا سکتی۔ مگر دستور ہند کے دائرے میں رہتے ہوئے اس کے حل کی کئی صورتیں قابل ِعمل ہیں۔ جب کوئی شخص آزادی کا لفظ بولے اور اس کی مراد یہ ہو کہ وہ دستور ہند کی ماتحتی نہیں چاہتا تو اس وقت ہمارے درمیان کوئی مشترک بنیاد باقی نہیں رہتی۔ البتہ اگر آدمی خیال کرے کہ دستور ہند کے اندر ایسی خوداختیاری کا حصول ممکن ہے جو اس کی آرزؤوں کو پورا کر سکتا ہے تو یہ وہ چیز ہے جس پر میں گفت و شنید کرنا چاہیے۔
ہندستان ٹائمس (۹ جون ۱۹۹۲) نے اپنے اداریہ میں وزیر اعظم ہند کی اس تجویز کو بجاطور پر نہایت تعمیری تجویز (most concrete) کہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حالات کے اعتبار سے یہ کشمیریوں کے لیے "بسٹ پا سبل" کے ہم معنی ہے۔ اور انھیں مزید وقت کھوئے بغیر اس کو اختیار کر لینا چاہیے۔ ان کو چاہیے کہ وہ اٹو نومی کی بنیا د پر نئی دہلی سے گفتگو شروع کر دیں۔ وہ دل سےوزیر اعظم کی اس پیش کش کو قبول کرلیں۔
خدا کی اس دنیا میں زندگی کے فیصلے بندوق کے زور پر نہیں ہوتے۔ بلکہ حقائق کے زور پر ہوتے ہیں۔ اس دنیا میں آدمی کو جو کچھ ملتا ہے، قانون حیات کی پیروی کے ذریعہ ملتا ہے۔ یہ قانونِ حیات خود خالقِ کائنات کا مقرر کیا ہوا ہے۔ اور کون ہے جو خالق کائنات کے نقشے کے خلاف چل کر اپنے لیے کوئی چیز پاسکے۔
آدمی کو چاہیے کہ وہ اس دنیا میں زیادہ کا مطالبہ کرے مگر وہ کم پر راضی ہو جائے۔وہ ناممکن کے پیچھے نہ دوڑے بلکہ ممکن کو اپنا نشانہ قرار دے۔ وہ مسائل سے ٹکرانے کے بجائے مواقع کو استعمال کرے۔ وہ کسی بھی حال میں کسی معاملے کو وقار کا مسئلہ نہ بنائے۔ وہ تشدد کی قوت سے پر ہیز کرے اورہر حال میں امن کی قوت کو استعمال کرے۔ وہ آگے بڑھنے کے ساتھ پیچھے ہٹنا بھی جانتا ہو۔
کشمیریوں کو اچھی طرح جان لینا چاہیے کہ موجودہ حالات میں ان کے لیے انتخاب ہندستانی کشمیر اور غیر ہندستانی کشمیر میں نہیں ہے۔ بلکہ ہندستانی کشمیر اور بر باد کشمیر میں ہے۔ پچھلے تین سال کا تجربہ اس حقیقت کو کامل طور پر ثابت کر چکا ہے۔ اب آخری طور پر وہ وقت آگیا ہے کہ کشمیری اپنے رویہ پر نظر ثانی کریں۔ وہ دوڑتے ہوئے وقت کو مزید ایک لمحہ کے لیے بھی ضائع نہ کریں۔