کامیابی کا راز
ٹاٹا خاندان نے صنعت کے میدان میں ہندستان میں غیر معمولی ترقی کی ہے۔ ان کا صنعتی پھیلاؤ اتنازیادہ ہے کہ اس کو ٹاٹا انڈسٹریل ایمپائر کہا جاتا ہے۔ یہ ترقی انھیں اتفاقاً حاصل نہیں ہو گئی۔ بلکہ اس کے معلوم اسباب ہیں۔ ان اسباب میں نمایاں ترین وہ اخلاقی اوصاف ہیں جس کا ثبوت وہ تقریبا ًڈیڑھ سو سال سے دے رہے ہیں۔
۱۔ صنعتی کامیابی کی یہ کہانی گجرات کے ایک پارسی جمشید جی نوشیرواں جی ٹاٹا سے شروع ہوتی ہے۔ انھوں نے ۱۸۶۸ میں بمبئی میں ۲۱ ہزار روپیہ کی لاگت سے اسٹیل کا ایک کارخانہ ٹاٹا پلانٹ کے نام سے قائم کیا۔ یہ ابتدا ترقی کرتے کرتے آج ایک انڈسٹریل ایمپائر بن چکی ہے۔ مگر ٹاٹا گروپ پورے استقلال اور اتحاد کے ساتھ اپنی مہم میں لگا ہوا ہے۔ کوئی بھی چیز اس کے استقلال اور اتحاد کو توڑنے والی نہ بن سکی۔
۲-جمشید جی کے بعد ان کے صاحبزادے جہانگیر رتن جی دادا بھائی ٹاٹا (JRD Tata) نے اس کاروبار کو بہت زیادہ ترقی دی ہے۔ ان کو بجا طور پر عظیم بصیرت والا انسان (great visionary) کہا جاتا ہے۔ ان کی بصیرت اور دور اندیشی کا ایک ثبوت یہ ہے کہ انھوں نے سب سے پہلے ہندستان میں ہوا بازی کی اہمیت کو سمجھا۔ وہ پہلے ہندستانی پائلٹ ہیں جن کو مارچ ۱۹۲۹ میں ہوائی جہاز چلانے کا لائسنس دیا گیا۔ انھوں نے ۱۹۳۲ میں پہلی ہوائی کمپنی ٹاٹا ایرویز کے نام سے قائم کی۔ ۱۹۴۸ میں ہندستانی حکومت نے اس کو اپنے قبضہ میں لے لیا اور اس کا نام ایر انڈیار کھ دیا گیا۔
۳۔ جے آرڈی ٹاٹا (۱۹۰۴) غیر معمولی وسعت ظرف کے مالک ہیں۔ ۱۹۳۰ میں آغا خاں نے اعلان کیا کہ انگلینڈ اور انڈیا کے درمیان جو شخص سب سے کم وقت میں جہاز اڑا کر لے جائے گا اس کو وہ بہت بڑا انعام دیں گے۔ اس پر جے آر ڈی ٹاٹا نے کراچی سے اپنا جہاز اڑایا۔ ایک اور شخص لندن سے روانہ ہوا۔ درمیان میں دونوں تیل لینے کے لیے قاہرہ میں اترے۔
اس وقت ٹاٹا کو معلوم ہوا کہ ان کے حریف کو ایک پرزہ کی ضرورت پیش آگئی ہے۔ اس کو اس وقت تک قاہرہ ایر پورٹ پر انتظار کرنا پڑے گا جب تک انگلینڈ سے وہ پرزہ نہ آجائے۔ ٹاٹا کے لیے یہ سنہری موقع تھا کہ وہ بلا مقابلہ کامیابی حاصل کر لیں۔ مگر انھوں نے وسعت ظرف سے کام لیتے ہوئے وہ پر زہ اپنے پاس سے اپنے حریف کو دے دیا۔ اس فیاضی کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کا حریف مقابلہ جیت گیا۔ مگر ٹاٹا نے کبھی اس کے بارے میں کسی قسم کے ملال کا اظہار نہیں کیا۔
۴۔ انسانی احترام کے بارے میں جے آر ڈی ٹاٹابے حد حساس ہیں۔ اختیارات کے باوجود وہ اپنی رائے دوسروں کے اوپر نہیں تھوپتے۔ بلکہ ہمیشہ دوسروں کو متاثر کرنے کا طریقہ (persuasion therapy) استعمال کرتے ہیں۔ ایک بار ان کی کمپنی کے ایک ڈائر کٹر نے ایک لفٹ پر یہ نوٹس لگا دی کہ اس لفٹ کو صرف ڈائر کٹر حضرات ہی استعمال کر سکتے ہیں۔ ٹاٹا کو معلوم ہوا تو وہ تیزی سے مذکورہ مقام پر پہنچے اور خود اپنے ہاتھ سے اس نوٹس کو پھاڑ کر پھینک دیا (ہندستان ٹائمس ۳ فروری ۱۹۹۲)
اس دنیا میں کامیابی کا راز، ایک لفظ میں، با اصول ہونا ہے۔ یہاں اصول کے مطابق زندگی گزارنے والا آدمی کامیاب ہوتا ہے اور اصول سے انحراف کرنے والا آدمی ناکام۔
اصول کیا ہے۔ اصول در اصل حقائق سے مطابقت کرنے کا دوسرا نام ہے۔ حقائق اگر استقلال کا تقاضا کر یں تو آدمی غیر مستقل مزاجی کے ساتھ یہاں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ حقائق اگر دور اندیش آدمی کا ساتھ دیتے ہوں تو دور اندیشی کے خلاف رویہ کا ثبوت دے کر یہاں کا میابی کا حصول ممکن نہیں۔ حقائق کا مطالبہ اگر یہ ہو کہ لوگوں کے مزاج کی رعایت کی جائے تو یہ ناممکن ہے کہ ایک شخص لوگوں کے مزاج کے خلاف چلے اور اس کے باوجود وہ کامیاب ہو۔
نیز یہ کہ اصول کو مفادات سے بلند ہو کر اختیار کرنا چاہیے۔ اگر ایک شخص ایسا کرے کہ جہاں بظاہر فائدہ نظر آئے وہاں وہ اصول پسند بن جائے اور جہاں فائدہ دکھائی نہ دے وہاں وہ اصول کو چھوڑ دے تو ایسے شخص کو با اصول نہیں کہا جاسکتا۔
جو شخص اصول کو مفادات کے تابع رکھے وہ اس دنیا میں چھوٹی کامیابی تو حاصل کر سکتا ہے۔ مگر یہاں بڑی کامیابی صرف اس انسان کے لیے مقدر ہے جو اصول کو اصول کے لیے اختیار کرے، جو مفادات کی پروا کیے بغیر اصول پر قائم رہنے والا ہو۔