نوعیّتِ حیات

ہر آدمی موت کی زد میں ہے۔ ہر آدمی جو زندہ ہے اس کو بہر حال ایک روز مر جانا ہے۔ ہر آدمی پر وہ وقت آنے والا ہے جب کہ اس کی دیکھنے والی آنکھیں بند ہو جائیں۔ جب اس کی بولنے والی زبان خاموش ہو جائے، جب اس کے چلنے والے قدم ٹھہر کر رہ جائیں۔ جب وہ زندہ انسان کے بجائے مردہ انسان کہا جانے لگے۔

مگریہ موت خاتمۂ حیات نہیں، وہ ایک نیا آغازِ حیات ہے۔ موت وجود سے عدم کی طرف سفر نہیں بلکہ وہ خود زندگی کے ایک مرحلے سے دوسرے مرحلے کی طرف سفر ہے۔ وہ اختیار کے دورسے گزر کر بے اختیاری کے دور میں داخل ہونا ہے۔

جو شخص بھی اپنے آپ کو موجودہ دنیا میں چلتا پھرتا پاتا ہے، اس پر لازم ہے کہ وہ سب سے پہلے نوعیت ِحیات کو سمجھے۔ اس دنیا میں اسے کیوں بسایا گیا ہے۔ اس کی کامیابی اور ناکامی کا معیار کیا ہے۔ ان سوالات کے جواب کو جاننا انتہائی ضروری ہے۔ تاکہ آدمی اپنی زندگی کا صحیح رخ متعین کر سکے۔ تاکہ وہ اپنے آپ کو حقیقی کامیابی کی سمت میں چلا سکے۔

اس سوال کا صحیح جواب یہ ہے کہ موجودہ دنیا میں انسان حالتِ امتحان میں ہے۔ یہاں جو کچھ بھی کسی آدمی کو ملتا ہے وہ اس کے لیے امتحان کا پرچہ ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ اس دنیا میں ملی ہوئی ہر چیز کو اس طرح استعمال کرے جس طرح ایک طالب علم امتحان ہال کی چیزوں کو استعمال کرتا ہے کیونکہ اسی استعمال کے صحیح یا غلط ہونے پر اس کے ابدی مستقبل کا فیصلہ ہونے والا ہے۔

موجودہ دنیا میں آدمی اپنے آپ کو اختیار کی حالت میں پاتا ہے۔ مگر یہ اختیار اس جانچ کے لیے ہے کہ آدمی اپنے اختیار کو صحیح ڈھنگ پر استعمال کرتا ہے یا غلط ڈھنگ پر۔

آدمی کی کامیابی یہ ہے کہ وہ اختیار رکھتے ہوئے اپنے آپ کو بے اختیار کر لے۔ وہ اپنی خواہش پر چلنے کے بجائے اصول حق کی پیروی کرے۔ وہ اپنی انا کو اپنا رہنما بنانے کے بجائے اس قادر مطلق کو اپنا رہنما بنائے جس نے اس کو پیدا کر کے اس دنیا میں رکھا ہے اور جو آخر کار اس کا حساب لینے والا ہے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom