غلط توجیہہ
وقال الذين كفروا لولا نزل عليه القرآن جملة واحدة كذلك، لنثبت به فؤادك ورتلناه ترتيلا(الفرقان:۳۲)
اور انکار کرنے والوں نے کہا کہ اس کے اوپر پورا قرآن کیوں نہیں اتارا گیا۔ ایسا اس لیے ہے تاکہ اس کے ذریعہ سے ہم تمہارے دل کو مضبوط کریں اور ہم نے اس کو ٹھہر ٹھہر کرا تارا ہے۔
قرآن بیک وقت کتابی مجموعہ کی صورت میں نہیں اتارا گیا۔ بلکہ تھوڑا تھوڑا کر کے ۲۳ سال کے دوران اتارا گیا۔ اس واقعہ کو لے کر مکہ کے منکرین نے یہ کہنا شروع کیا کہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ خدا کی کتاب نہیں۔ خدا کے لیے یہ مشکل نہیں کہ وہ ایک ہی وقت میں پوری کتاب بھیج دے۔ محمد ایک امی انسان ہیں، ان کے لیے البتہ بیک وقت پوری کتاب پیش کرنا مشکل ہے۔ چناں چہ وہ عرب کے کچھ لوگوں کی مدد سے اس کا تھوڑا تھوڑا حصہ تیار کرتے ہیں اور جتنا حصہ تیار ہوتا ہے اتنا لوگوں کو سنا دیتے ہیں (الفرقان: ۴)
یہ تا خیرِنزول کی غلط توجیہہ تھی۔ فرمایا کہ پورا قرآن بیک وقت سامنے نہ لانے کا سبب تیاری کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ترتیل یا تدریج کا مسئلہ ہے (قال الرازی: الترتيل في الكلام أن يأتي بعضه على إثر بعض)
نزول میں تاخیر بجائے خود ایک واقعہ تھی۔ مگر اس کی یہ توجیہہ بے بنیا دتھی کہ اس کا سبب تیاری کا مسئلہ ہے۔ مگر یہ بے بنیاد تو جیہہ اتنی پر فریب ثابت ہوئی کہ بہت سے لوگ اس سے متاثر ہو گئے۔ حتی کہ اللہ تعالٰی کو اس کی تردید کرنی پڑی۔ قرآن میں یہ بتایا گیا کہ تدریج کی مصلحت کی بنا پر نزول میں یہ تاخیر کی جاتی ہے نہ کہ تیاری کی مشکل کی بنا پر۔
یہ دنیا آزمائش گاہ ہے۔ یہاں حقائق پر التباس و اشتباہ کا پردہ ہے۔ اس لیے یہاں ایک فتنہ پرور شخص کے لیے ہمیشہ یہ موقع رہے گا کہ وہ ایک صحیح بات کی گمراہ کن تو جیہہ کر سکے۔وہ ایک سیدھی بات کو ٹیڑھی بات بنا کر پیش کرے۔
یہ موقع قیامت تک کھلا رہے گا۔ قیامت سے پہلے یہ موقع کسی سے چھینا جانے والا نہیں۔