اصلاح کا طریقہ
بنو امیہ کے زمانے میں خلافت اپنے اسلامی طرز پر باقی نہ رہی۔ اب انصاف کی جگہ ظلم ہونے لگا اور سرکاری اموال میں دیانت کے بجائے اسراف شروع ہو گیا۔ اس زمانے میں کچھ لوگوں کو یہ خیال ہوا کہ ایسے حکمرانوں کو زکوۃ دینا درست نہیں۔ مگر اس وقت اصحاب رسول میں سے جو لوگ موجود تھے انھوں نے یہ فیصلہ کیا کہ زکوۃ انھیں موجودہ حکمرانوں کو دی جائے۔ روایات میں آتا ہے کہ ایک شخص نے حضرت عبداللہ بن عمرسے پوچھا کہ اب زکوۃ کس کو دیں۔ انھوں نے جواب دیا کہ وقت کے حاکموں کو دو۔ پوچھنے والے نے کہا کہ یہ لوگ زکو ۃ کی رقم عطر پر اور اپنے قیمتی کپڑوں پر خرچ کرتے ہیں۔ جواب دیا : وإن۔ یعنی اگر چہ وہ ایسا کریں تب بھی انھیں کو دو (ابن ابی شیبہ)
صحابی رسول کی یہ ہدایت عین اسلامی تعلیم کے مطابق ہے۔ اس ہدایت کا مطلب ظالم حکمراں کے سامنے جھکنا نہیں تھا، بلکہ لوگوں کو یہ بتا نا تھا کہ ان کے عمل کا رخ کیا ہونا چاہیے۔
حکمراں کا بگاڑ ہمیشہ عوام کے بگاڑ کا نتیجہ ہوتا ہے۔ چناں چہ حدیث میں آیا ہے کہ جیسے تم ہو گے ویسے ہی تمہارے حکمراں ہوں گے (كما تكونون كذلك يؤمر عليکم) ایسی حالت میں صحیح طریقہ یہ ہے کہ جب حکمراں میں بگاڑ نظر آئے تو عوام کی سطح پر اصلاح کا کام شروع کر دیا جائے۔ درخت کے اندر اگر سوکھنے کے آثار ظاہر ہوں تو اس کی جڑ میں پانی دیا جائے گا نہ کہ پتیوں میں۔
حضرت عبداللہ بن عمر نے اپنے جواب کے ذریعہ لوگوں کے سوچنے کے رخ کو موڑ دیا۔ لوگ حکمراں میں بگاڑ دیکھ کر سوچنے لگے تھے کہ حکمراں سے لڑیں۔ آپ نے لوگوں کو بتایا کہ تم لوگ اپنی سوچ کو سیاست کے باہر دوسرے دائروں میں اصلاح پر لگاؤ۔ غیر سیاسی دائرے میں اگر تم اصلاح لانے میں کامیاب ہو گئے تو اس کے بعد سیاسی دائرے میں بھی لازماً اصلاح ہو کررہے گی۔
سیاست میں بگاڑ کو دیکھ کر سیاسی نظام سے لڑنے لگنا صرف ایک عاجلانہ ردعمل ہے، قوت کے ضیاع کے سوا اس کا کوئی حقیقی فائدہ نہیں۔ اس لیے اسلام میں ایسی کارروائیوں سے منع کیا گیا ہے۔صحیح طریقہ یہ ہے کہ بگاڑ کی جڑ کو سمجھا جائے اور جڑ سے اصلاح کی کوشش کی جائے۔ اور جڑوالی اصلاح کا آغاز عوامی اصلاح سے ہوتا ہے نہ کہ حکومتی ٹکراؤ سے۔