دونوں ڈوب گئے
قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اے لوگو، ایک مثال بیان کی جاتی ہے تو تم اس کو غور سے سنو۔ تم لوگ اللہ کے سوا جن کو پکارتے ہو وہ ایک مکھی بھی پیدا نہیں کر سکتے، اگر چہ وہ سب کے سب اس کے لیے جمع ہو جائیں۔ اور اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین لے تو وہ اس کو اس سے چھڑا نہیں سکتے۔ طالب بھی کمزور اور مطلوب بھی کمزور۔ انھوں نے اللہ کی قدر نہ پہچانی جیسا کہ اس کو پہچاننے کا حق ہے۔ بے شک اللہ طاقت ورہے، غالب ہے (الحج: ۷۴-۷۳)
اس معاملہ کی ایک دلچسپ مثال انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا(۱۱مارچ ۱۹۹۰) میں نظر سے گزری۔ حیدر آباد میں بدھا کی مورتی (اسٹیچو) لگانے کا ایک منصوبہ بنایا گیا۔ اس پورے منصو بے کی لاگت ۵۸کرو ر ۵۸ لاکھ روپیہ تھی۔ صرف مورتی کی لاگت ۸۰ لاکھ روپیہ تھی۔ یہ مورتی نہایت اہتمام سے بنوائی گئی۔ اس کا انشورنس ۳ کرور۷لاکھ روپیہ تھا اور تیاری کے دوران آندھرا پردیش کے چیف منسٹر ڈاکٹر چنا ریڈی روزانہ اس کے معائنہ کے لیے جاتے تھے۔ اس مورتی کا وزن تقریبا۴۵۰ً ٹن تھا، اور وہ ۷۵ فٹ اونچی تھی۔
۱۰ مارچ ۱۹۹۰ کو بدھا کی یہ مورتی حسین ساگر جھیل کے کنارے ایک مخصوص کشتی پر رکھی گئی۔ اس کو جھیل میں آدھے کیلو میٹر کا سفر طے کر کے مقررہ مقام پر پہونچنا تھا جہاں اس کو نصب کرنے کے لیے ایک مخصوص پلیٹ فارم بنایا گیا تھا۔ اس کی تعمیر پر۲ کرور ۳۲ لاکھ روپیہ کی لاگت آئی تھی۔مگر کشتی جب جھیل کے درمیان پہونچی تو وہ اندر پانی آجانے کی بنا پر (یا اور کسی وجہ سے) ڈوب گئی۔ مورتی سمیت آٹھ آدمی بھی سات میٹر نیچے پانی کی تہہ میں چلے گیے۔
انسان ایک اللہ کے سوا دوسری چیزوں کا بت بناتا ہے، وہ ان کو مقدس سمجھتا ہے اور ان کو پوجتا ہے۔ حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ بت (اور اسی طرح صاحبانِ مزار) اپنے اندر کوئی طاقت نہیں رکھتے۔ وہ خود اپنی حفاظت بھی نہیں کر سکتے، وہ دوسرے کی حفاظت کیا کریں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ صرف ایک خدا ہے جو تمام طاقتوں کا مالک ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اسی کی پرستش کرے اور اسی سے اپنی تمام امیدیں وابستہ کر ے۔ اللہ کے سوا جو چیزیں ہیں وہ خود محتاج ہیں، وہ دوسروں کی کیا مدد کر سکتی ہیں۔