ہر چیز امتحان
کل نفس ذائقة الموت ونبلوكم بالشرّ والخیر فتنة وإلینا ترجعون (الانبیاء: ۳۵) ہر جان کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ اور ہم تم کو بری حالت سے اور اچھی حالت سے آزماتے ہیں پرکھنے کےلیے۔اور تم سب ہماری طرف لوٹائے جاؤ گے۔
قرآن کی یہ آیت انسانی زندگی کے بارےمیں خدا کے منصوبے کو بتاتی ہے۔ اس دنیا میں کسی کو راحت ملتی ہے اور کسی کو مصیبت۔کبھی ایسا ہوتا ہے کہ پسندیدہ صورت حال سے سابقہ پیش آتا ہے اور کبھی ناپسندیدہ صورت حال سے۔مگران سب کا مقصد صرف ایک ہے، اور وہ آزمائش ہے۔ خدا کسی کو ایک طرح کے حالات میں رکھ کر آزماتا ہے اور کسی کو دوسری طرح کے حالات میں رکھ کر۔ یہاں اصل چیز حالات نہیں ہیں، یہاں اصل چیز یہ ہے کہ آدمی کو جو حالات ملے ان میں اس نے کس قسم کا ردِ عمل پیش کیا۔
اس دنیا میں کسی کو عزت اور کامیابی دی جاتی ہے تو وہ اس کے لیے انعام نہیں ہوتاوہ صرف اس لیے ہوتا ہے کہ خدا یہ دیکھے کہ آدمی عزت اور کامیابی پاکر گھمنڈ میں مبتلا ہوا یا اس نے شکر اور تواضع کا رویہ اختیار کیا۔ اسی طرح جب کسی شخص کو بظاہر پستی اور ناکامی میں ڈالا جاتا ہے تو یہ اس کے لیے سزا نہیں ہوتی۔ وہ اس لیے ہوتی ہے کہ خدا یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ پستی اور نا کامی میں مبتلا ہو کر اس نے صبر کا رویہ اختیار کیا یا بے صبری اور شکایت کا۔ اسی رد عمل پرآخرت میں آدمی کے ابدی انجام کا فیصلہ کیا جانے والا ہے۔
قرآن میں ہے کہ حضرت سلیمان کو جب اپنے حق میں بعض غیر معمولی نعمتوں کا تجربہ ہوا تو ان کی زبان سے نکلا کہ یہ میرے رب کا فضل ہے تاکہ وہ مجھے جانچے کہ میں شکر کرتا ہوں یا نا شکری 'أأشکر أم أکفر'(النمل: ۴۰)
ایک طالب علم کو امتحان میں ۲۰ پرچے کے بجائے ۵ پرچے دیےجائیں تو وہ خوش ہو گا کہ مجھ کوحل کرنے کے لیے کم پرچے ملے۔ اسی طرح موجودہ دنیا میں جس آدمی کو کم ساز و سامان ملے یا کم عہدہ دیاجائے تو اس کو شکر کرنا چاہیے کہ اس کے رب نے اس کے ساتھ آسان آزمائش کا معاملہ کیا۔ نہ یہ کہ وہ اس کمی کی بنا پر شکایت اور حسد اور مایوسی جیسے جذبات میں مبتلا ہو جائے